سقراط نے کہا تھا کہ عورت کمزور تو ہوسکتی ہے لیکن کہتر یا کمتر نہیں.... ویسے مشاہدہ بتاتا ہے کہ عقلمند و دانا عورت(متوسط طبقے سے) معاشرے کو پسند نہیں آتی۔ عمومی طورپر معاشرے کو روتی ہوئی مظلوم عورت کی ہی عادت ہے۔ اس معاشرتی رویے کے سبب بیشتر خواتین صرف گھریلو امور کو نبھاتے نبھاتے اپنے فن، ذہانت تعلیم و صلاحیت کو زنگ آلود کردیتی ہیں۔ گھر داری سنبھالنا اور پھر قومی خدمت بھی انجام دینا اور پھر اس طرح کہ اپنے اندر کی شخصیت کو بھی فنا ہونے سے بچائے رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔عورت اپنی گھریلو زندگی سے وابستہ خاندانوں کی عزت کی پاسباں اور خاندانوں میں قومی حمیت و وقار کانشان بھی بن کر ایک رول ماڈل ہوسکتی ہے۔ یہ کٹھن کام ضرور ہے لیکن کوئی ناممکن نہیں ہے۔ صرف اسے سنگلاخ راستوں کے پرخار راستوں کے لہو لہو یایہ زیست کے درد سے چشم نم کے چھلکے آنسو پی جانے کا نشہ ہوناچاہئے ہاں.... زندگی میں ایسے بے شمار موڑ آئے کہ محسوس ہوا کہ اب کا طوفان بہا لے جائے گا لیکن پتہ چلا کہ دنیا کا دیا عذاب کوئی معانی نہیں رکھتا بس رحم تو صرف اللہ کا ہی رہنا چاہیے۔پھلدار شاخ کا پھل گرانے یا توڑنے والے کی کوشش کا طریقہ کتنا ہی ظالم کیوں نہ ہوں، درخت کی بنیادیں اللہ کی لو سے جڑی ہوں تو پرواہ نہیں درخت قائم رہے پھل پھول بھی لگتے رہتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے عہد پاکستان والوں کا جنہوں نے آج کے پر آشوب اور نفسہ نفسی کے دور میں ہمت، صلاحیت و جفاکشی کی تعظیم کی اور ایک یادگار تقریب کا اہتمام کیا۔مقصود چغتائی و اظہاراحمد خان جیسے بھائیوں نے گزشتہ دنوں جرمنی میں مکمل کیے جانے والے میرے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے آپروول کے موقع پر مجھے بمعہ فیملی استقبالیہ دیا۔ جس میں شعبہ تعلیم و صحافت کے لا تعداد بہن بھائی شریک ہوئے۔ جن میں سر دست ملک کی نامور کالم نگار و دانشور و رکن قومی اسمبلی بشریٰ رحمن آئی ایم سی ایس پنجاب یونیورسٹی کے ڈائریکٹر احسن اختر ناز، رکن صوبائی اسمبلی سیف الملوک کھوکھر، پرنسپل عذرا امتیاز، مسز عابدہ قاضی، قیصر محمود قریشی(پاکستان ائیر فورس)،ملک پرویز عارف،اظہار احمد خاں، پروفیسر عذرا سلطانہ، نذر بھنڈر، یونس بٹ،مجاہد بودلہ، اکمل اویسی،محمد امجد،اسعد محمود، گل شفقت اور مس عظمیٰ کے نام نمایاں ہیں۔ عہد پاکستان نے استقبالیہ کی یہ تقریب پروفیشنل انسٹی ٹیوٹ ہیومن فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ کے صدر دفتر کے کانفرنس روم میں منعقد کی۔ نظامت کے فرائض مقصود احمد چغتائی نے نبھائے۔ عہد پاکستان کے پلیٹ فارم پہ موجود میرے ہر ہم وطن و ساتھی کا خطاب میرے لئے سرمایہ ہے بلکہ میرے جیسے ہر پاکستانی جو محنت کو اپنی سفارش بنا کر آگے بڑھنے کا عمل سرکرتا ہے کیلئے توانائی ہے۔ محترمہ بشریٰ رحمان نے اپنی خوبصورت تقریر میں کہا کہ باحیاءاوراپنے شوہر سے باوفا عورت آسمان کا حسین تحفہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری وہ عورتیں جو اپنی مشرقیت پہ آنچ نہیں آنے دیتیں اور اپنی تہذیب کا دامن تھامے رکھتی ہیں پھر وہ اپنی محنت کے بل بوتے پہ اپنی صلاحیتوں کو منوا لیتی ہیں ایسی ہی خواتین کو گھر اور گھر کے باہر ہماری سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔اپنے کام سے مخلص لوگوں کی ہی ہمارے ملک کو بھی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ملک اچھے اور جفاکش لوگوں سے ابھی تہی دامن نہیں ہوا۔ملک کے چھوٹے چھوٹے مسائل کی آڑ لیکر جو ملک توڑنے کی بات کرتے ہیں ہم ملکران کا منہ نوچ لیں گے۔انہوں نے کہا کہ راشد ہ قریشی نے ثابت کردیا کہ عورت کا ارادہ پختہ ہو اور اسے خود پہ یقین ہو تو مرد اسکی ترقی کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا بلکہ وہ مرد تو خود قابل تحسین ہیں جن کی عورتیں قومی خدمت میں پیش پیش ہیں اور وہ اپنی عورتوں کے پیچھے کھڑے ہیں۔ ملک سیف الملوک کھوکھر نے کہا کہ ڈاکٹرراشدہ رشتے میں میری بھابھی ہیں کیونکہ ان کے شوہر میرے فرسٹ کزن ہیں لیکن میں اپنے بھائی سے زیادہ اپنی بہن راشدہ کی بات کا زیادہ اثر لیتا ہوں وہ اکثر معاملات میں مجھے صائب مشورے دیتی ہیں اور میری معاونت بھی کرتی ہیں۔ سیف الملوک کھوکھر نے کہا کہ خاندانی و اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کی ترقی کے راستے مخدوش ہونے سے بچائے جائیں۔ ڈاکٹر احسن اختر ناز نے کہا کہ ڈاکٹرراشدہ قریشی نے جرمن میں اپنی پی ایچ ڈی کے دوران میرے ڈیپارٹمنٹ سے جب بھی تعاون مانگا میں نے مشکلات کے باوجود ان کی مدد کی۔ معروف سفر نگار مقصود احمد چغتائی نے کہا کہ ڈاکٹر راشدہ قریشی نے پاکستان میں رہ کر اور بار بار جرمن جا کر جس طرح اپنی پی ایچ ڈی ریسرچ مکمل کی وہ قابل تحسین ہے۔اب یہ اپنے ڈیفنس کیلئے جرمن واپس جارہی ہیں تو ہم ان ہی کی تعلیم و تربیت کے مسائل نمٹانے کے علاوہ گھر بنانے کی تگ ودو میں دیکھتے رہتے ہیں وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کی ماں حصول علم کیلئے سنگلاخ پر خار راستوں کے باوجود کہاں تک گئی۔یہی بات ہے جو میرے ہزاروں طالب علم بھی دیکھ رہے ہیں۔اس اثناءمیں کیا ہمیں امپورٹڈ خواتین رول ماڈلز کی ضرورت ہے۔عہد پاکستان والوں کی اس پذیرائی کا شکریہ۔
عہد پاکستان والوں کی پذیرائی کاشکریہ
Aug 08, 2010
سقراط نے کہا تھا کہ عورت کمزور تو ہوسکتی ہے لیکن کہتر یا کمتر نہیں.... ویسے مشاہدہ بتاتا ہے کہ عقلمند و دانا عورت(متوسط طبقے سے) معاشرے کو پسند نہیں آتی۔ عمومی طورپر معاشرے کو روتی ہوئی مظلوم عورت کی ہی عادت ہے۔ اس معاشرتی رویے کے سبب بیشتر خواتین صرف گھریلو امور کو نبھاتے نبھاتے اپنے فن، ذہانت تعلیم و صلاحیت کو زنگ آلود کردیتی ہیں۔ گھر داری سنبھالنا اور پھر قومی خدمت بھی انجام دینا اور پھر اس طرح کہ اپنے اندر کی شخصیت کو بھی فنا ہونے سے بچائے رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔عورت اپنی گھریلو زندگی سے وابستہ خاندانوں کی عزت کی پاسباں اور خاندانوں میں قومی حمیت و وقار کانشان بھی بن کر ایک رول ماڈل ہوسکتی ہے۔ یہ کٹھن کام ضرور ہے لیکن کوئی ناممکن نہیں ہے۔ صرف اسے سنگلاخ راستوں کے پرخار راستوں کے لہو لہو یایہ زیست کے درد سے چشم نم کے چھلکے آنسو پی جانے کا نشہ ہوناچاہئے ہاں.... زندگی میں ایسے بے شمار موڑ آئے کہ محسوس ہوا کہ اب کا طوفان بہا لے جائے گا لیکن پتہ چلا کہ دنیا کا دیا عذاب کوئی معانی نہیں رکھتا بس رحم تو صرف اللہ کا ہی رہنا چاہیے۔پھلدار شاخ کا پھل گرانے یا توڑنے والے کی کوشش کا طریقہ کتنا ہی ظالم کیوں نہ ہوں، درخت کی بنیادیں اللہ کی لو سے جڑی ہوں تو پرواہ نہیں درخت قائم رہے پھل پھول بھی لگتے رہتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے عہد پاکستان والوں کا جنہوں نے آج کے پر آشوب اور نفسہ نفسی کے دور میں ہمت، صلاحیت و جفاکشی کی تعظیم کی اور ایک یادگار تقریب کا اہتمام کیا۔مقصود چغتائی و اظہاراحمد خان جیسے بھائیوں نے گزشتہ دنوں جرمنی میں مکمل کیے جانے والے میرے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے آپروول کے موقع پر مجھے بمعہ فیملی استقبالیہ دیا۔ جس میں شعبہ تعلیم و صحافت کے لا تعداد بہن بھائی شریک ہوئے۔ جن میں سر دست ملک کی نامور کالم نگار و دانشور و رکن قومی اسمبلی بشریٰ رحمن آئی ایم سی ایس پنجاب یونیورسٹی کے ڈائریکٹر احسن اختر ناز، رکن صوبائی اسمبلی سیف الملوک کھوکھر، پرنسپل عذرا امتیاز، مسز عابدہ قاضی، قیصر محمود قریشی(پاکستان ائیر فورس)،ملک پرویز عارف،اظہار احمد خاں، پروفیسر عذرا سلطانہ، نذر بھنڈر، یونس بٹ،مجاہد بودلہ، اکمل اویسی،محمد امجد،اسعد محمود، گل شفقت اور مس عظمیٰ کے نام نمایاں ہیں۔ عہد پاکستان نے استقبالیہ کی یہ تقریب پروفیشنل انسٹی ٹیوٹ ہیومن فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ کے صدر دفتر کے کانفرنس روم میں منعقد کی۔ نظامت کے فرائض مقصود احمد چغتائی نے نبھائے۔ عہد پاکستان کے پلیٹ فارم پہ موجود میرے ہر ہم وطن و ساتھی کا خطاب میرے لئے سرمایہ ہے بلکہ میرے جیسے ہر پاکستانی جو محنت کو اپنی سفارش بنا کر آگے بڑھنے کا عمل سرکرتا ہے کیلئے توانائی ہے۔ محترمہ بشریٰ رحمان نے اپنی خوبصورت تقریر میں کہا کہ باحیاءاوراپنے شوہر سے باوفا عورت آسمان کا حسین تحفہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری وہ عورتیں جو اپنی مشرقیت پہ آنچ نہیں آنے دیتیں اور اپنی تہذیب کا دامن تھامے رکھتی ہیں پھر وہ اپنی محنت کے بل بوتے پہ اپنی صلاحیتوں کو منوا لیتی ہیں ایسی ہی خواتین کو گھر اور گھر کے باہر ہماری سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔اپنے کام سے مخلص لوگوں کی ہی ہمارے ملک کو بھی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ملک اچھے اور جفاکش لوگوں سے ابھی تہی دامن نہیں ہوا۔ملک کے چھوٹے چھوٹے مسائل کی آڑ لیکر جو ملک توڑنے کی بات کرتے ہیں ہم ملکران کا منہ نوچ لیں گے۔انہوں نے کہا کہ راشد ہ قریشی نے ثابت کردیا کہ عورت کا ارادہ پختہ ہو اور اسے خود پہ یقین ہو تو مرد اسکی ترقی کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا بلکہ وہ مرد تو خود قابل تحسین ہیں جن کی عورتیں قومی خدمت میں پیش پیش ہیں اور وہ اپنی عورتوں کے پیچھے کھڑے ہیں۔ ملک سیف الملوک کھوکھر نے کہا کہ ڈاکٹرراشدہ رشتے میں میری بھابھی ہیں کیونکہ ان کے شوہر میرے فرسٹ کزن ہیں لیکن میں اپنے بھائی سے زیادہ اپنی بہن راشدہ کی بات کا زیادہ اثر لیتا ہوں وہ اکثر معاملات میں مجھے صائب مشورے دیتی ہیں اور میری معاونت بھی کرتی ہیں۔ سیف الملوک کھوکھر نے کہا کہ خاندانی و اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کی ترقی کے راستے مخدوش ہونے سے بچائے جائیں۔ ڈاکٹر احسن اختر ناز نے کہا کہ ڈاکٹرراشدہ قریشی نے جرمن میں اپنی پی ایچ ڈی کے دوران میرے ڈیپارٹمنٹ سے جب بھی تعاون مانگا میں نے مشکلات کے باوجود ان کی مدد کی۔ معروف سفر نگار مقصود احمد چغتائی نے کہا کہ ڈاکٹر راشدہ قریشی نے پاکستان میں رہ کر اور بار بار جرمن جا کر جس طرح اپنی پی ایچ ڈی ریسرچ مکمل کی وہ قابل تحسین ہے۔اب یہ اپنے ڈیفنس کیلئے جرمن واپس جارہی ہیں تو ہم ان ہی کی تعلیم و تربیت کے مسائل نمٹانے کے علاوہ گھر بنانے کی تگ ودو میں دیکھتے رہتے ہیں وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کی ماں حصول علم کیلئے سنگلاخ پر خار راستوں کے باوجود کہاں تک گئی۔یہی بات ہے جو میرے ہزاروں طالب علم بھی دیکھ رہے ہیں۔اس اثناءمیں کیا ہمیں امپورٹڈ خواتین رول ماڈلز کی ضرورت ہے۔عہد پاکستان والوں کی اس پذیرائی کا شکریہ۔