سید یوسف رضا گیلانی (وزیراعظم پاکستان)
دادا کی وفات کے بعد ، اُنکے سوتےلے بھائی مخدوم غلام ےٰسےن شاہ گےلانی جن کی طبےعت مےں سادگی اور بھولپن تھا، سجادہ نشےنی کے سوال پر خاندان سے اختلاف کر گئے۔ مخدوم غلام ےٰسےن شاہ نے 1951ءکے انتخابات مےں دےوان غلام عباس بخاری کی مدد کی تھی، لہٰذا اس مسئلہ پر دےوان صاحب نے والد کو پےشکش کی کہ مےں اُنکی آپ سے مصالحت کروادےتا ہوں۔ والد نے دےوان صاحب کی اس تجوےز سے اتفاق کےا اور نتےجتاً ےہ مسئلہ خوش اسلوبی سے طے پاگےا ۔ اس طرح تاےا مخدوم شوکت حسےن تمام خاندان کی جانب سے متفقہ طور پر سجادہ نشےں مقرر ہوئے۔
تایا مخدوم شوکت حسین نے ہمیشہ والد کا ساتھ دیا اورزندگی بھر ان کے سیاسی فیصلوں کی حمایت کی۔ ان کی رفاقت انمول اور بے مثل تھی۔ انہیں 1945 ءمیں مسلم لیگ ضلع ملتان کا نائب صدر منتخب کیا گیا۔ اس وقت یہ تاثر عام تھا کہ مسلم لیگ ملتان صرف گیلانی خاندان کی جماعت ہے۔ اس تاثر کو ختم کرنے کیلئے تایا نے رضا کارانہ طور پر اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ 1949ءسے 1982 ءتک سجادہ نشین رہے۔ دین کی شبانہ روز تبلیغ کےساتھ ساتھ والد اور انکے چھوٹے بھائی سید فیض مصطفی کے شانہ بشانہ تعلیم کے میدان میں بھی انقلابی کارنامے انجام دیئے۔ انکے دور میں مریدوں کا حلقہ مزید وسیع ہوا۔
والد نے کئی خاندانوں کےساتھ روایتی تعلقات کو رشتوں میں بھی بدل دیا۔ انہوں نے اپنی ایک بھتیجی کی شادی سجادہ نشین درگاہ اوچ شریف مخدوم سید شمس الدین گیلانی کے بڑے بیٹے سید مختار حسن گیلانی اور دوسری بھتیجی کی شادی دربارحجرہ شاہ مقیم اوکاڑہ کے گدی نشین پیر سید اعجاز علی شاہ گیلانی سے کروائی۔ میری اور میری بہن کی شادی سجادہ نشین دربار پیر قطبیہ سندیلیانوالی پیر محل پیر سید اسرار حسین شاہ بخاری کی بیٹی اور بیٹے سے کروائی۔ میری بڑی بہن کی شادی اپنے بھتیجے سید وجاہت حسین سے کروائی جو بعد میں دربار پیر پیراں موسیٰ پاک شہید کے سجادہ نشین بنے۔
والد کا قول تھا کہ اگر کسی شخص کے ہاتھ میں شفا ہونے کے باوجود وہ کسی دوسرے شخص کو فیض یاب نہیں کرتا تو ایسا شخص خود بدنصیب ہے۔ والد کی یادداشت کمال کی تھی۔ انہیں ہزاروں لوگوں کے نام زبانی یاد تھے اور جب کبھی کسی تقریب میں لوگوں کو مدعو کرنا ہوتا تو بہت ہی کم وقت میں اپنی یادداشت سے لوگوں کے نام تحریر کرواا دیتے تھے۔
والد نے اپنے وزیر بننے کا واقعہ یوں سنایا کہ ایک مرتبہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب فیروز خان نون سے ملنے ان کے گھرگیا کہ تمہارے نانا مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ سے اچانک وہاں ملاقات ہوگئی۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں سردار محمد خان لغاری (سردار فاروق احمد خان لغاری کے والد) کو صوبائی وزیر بنوانے آیا ہوں۔ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ انہیں لغاری صاحب کے علاوہ میری بھی سفارش کرنی چاہئے تھی۔ جب میری ملاقات نون صاحب سے ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ تم وزیراعلیٰ پنجاب ہو اور مجھے اپنی کابینہ بنا کر دو۔ میں نے کہا کہ میں وزیراعلیٰ نہیں ہوں، آپ ہی ہیں اور یہ استحقاق بھی آپ ہی کا ہے۔ مگر وہ بضد تھے کہ کابینہ مجھے ہی بنانی ہے۔ میں نے کابینہ کےلئے پانچ نام تجویز کئے جن میں سردار محمد خان لغاری، رانا عبدالحمید ، مظفر علی قزلباش، علی اکبر خان اور شیخ مسعود صادق کے نام شامل تھے مگر جب کابینہ کا اعلان ہوا تو ایک نام کا اضافہ تھا اور وہ نام میرا تھا۔
والد نے 1953ءمیں فیروز خان نون کی کابینہ میں بطور وزیر صحت و بلدیات، حلف اٹھا۔ وزارت بلدیات عوام کے ساتھ رابطے اور مقامی سطح کے کام کروانے کے نکتہ نظر سے اہم ہے۔ 1956 ءمیں ماموں مخدوم زادہ سید حسن محمود نے صوبائی وزیر مغربی پاکستان بننے پر والد سے محکمے کے متعلق مشورہ مانگا تو والد نے انہیں بھی یہی محکمہ تجویز کیا اور وہ بلدیات کے صوبائی وزیر بن گئے۔ والد نے وزیر صحت کی حیثیت سے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کئی اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو) بنوائے جن میں ملتان، میانوالی، مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے ہسپتال قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ نشتر ہسپتال و میڈیکل کالج ملتان کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ میو ہسپتال لاہور اور ساملی سینی ٹوریم (ٹی بی ہسپتال) مری کی توسیع بھی ان ہی کے دور میں ہوئی۔
اس دور میں ڈاکٹروں کی بے حد کمی تھی اور دیہی علاقوں میں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس اہم انسانی مسئلے کے فوری حل کیلئے والد نے وکٹوریہ ہسپتال ، بہاولپور میں ایل ایس ایم ایف میڈیکل سکول کی بنیاد رکھی۔ میٹرک کے بعد اس سکول میں تین برس کا میڈیکل کورس کروایا جاتا تھا جس کے بعد دو برس تک دیہی علاقے میں خدمات انجام دینے کی لازمی شرط پوری کرنے پر متعلقہ امیدوار ایم بی بی ایس کے امتحان دینے کا اہل قرار پاتا تھا۔ ماموں سید حسن محمود اس دور میں بہاولپور ریاست کے وزیراعظم تھے۔ انہوں نے اس نیک کام کے لئے تمام بنیادی ضروریات بہم پہنچائیں۔ اور یوں ایک درد مند دل کی انقلابی سوچ نے نہ صرف دیہی علاقوں میں طبی سہولیات مہیا کردیں بلکہ ملک میں ڈاکٹروں کی شدید کمی دور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ملک میں اس سکیم کے تحت سینکڑوں ڈاکٹروں نے اپنی اعلیٰ قابلیت اور خدمات کی بدولت بڑا نام کمایا ان میں ملتان سے ہمارے فیملی ڈاکٹر محمد حسین ملک قابل ذکر ہیں۔ والد نے اپنے دور اقتدار میں عوام الناس کو روزگار فراہم کرنے کیلئے بھی دوڑ دھوپ کی۔ بطور وزیرصحت انہوں نے ایم بی بی ایس میں غریب لوگوں کے بچوں کو بھی داخلہ دلوا کر ڈاکٹر بنوایا کیونکہ اس وقت میڈیکل کالج کی نامزدگی گورنر نہیں بلکہ وزیر صحت خود کیا کرتا تھا۔
1953ءمیں والد کے پارلیمانی سیکرٹری چوہدری فضل الٰہی تھے جو بعد میں صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سردار عطاءمحمد خان لغاری محکمے کے سیکرٹری تھے جو بعد میں رکن صوبائی اسمبلی (ایم پی اے) پنجاب منتخب ہوئے اور سردار عاشق محمد خان مزاری محکمے کے ڈپٹی سیکرٹری تھے جو بعد میں رکن قومی اسمبلی (ایم این اے) منتخب ہوئے۔ والد کو اس حیثیت سے بھی یاد رکھا جاتا ہے کہ صوبائی وزیر صحت و بلدیات بننے پر 1954 ءمیں انہوں نے قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروائے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ہر ضلع میں ایک لائبریری ہو تاکہ عوام کی کتابوں تک رسائی ممکن بنائی جاسکے۔ اس سلسلے میں قلعہ، کہنہ قاسم باغ، ملتان میں ایک وسیع میونسپل لائبریری کا افتتاح کیا جو ملتان کیلئے ایک عظیم علمی خزانہ ہے۔ والد کچھ عرصہ امپروومنٹ ٹرسٹ(موجودہ وزارت ہاﺅسنگ) کے صوبائی وزیر بھی رہے۔ اس وقت انہوں نے گلبرگ، لاہور اور مری کو ترقی دلانے کیلئے خصوصی طور پر دلچسپی لی جس کی وجہ سے پور ملک سے لوگوں نے سرمایہ کاری کی اور کچھ ہی عرصے میں وہ سب سے زیادہ پررونق آبادیاں بن گئیں۔والد کے سابق گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان سے دیرینہ مراسم تھے۔ نواب صاحب مقامی طور پر پیر سید لعل بادشاہ گیلانی آف مکھڈ،کیمبل پور (اٹک)کے سیاسی حریف تھے۔ پیر صاحب کی سیاسی وابستگی ممتار دولتانہ سے تھی۔ ان کے بیٹے پیر صفی الدین شاہ گیلانی وائس چیئرمین ڈسٹرکٹ بورڈ ، کیمبل پور تھے۔ اس وقت تک ان سے میری پھوپھی کی شادی نہیں ہوئی تھی لہذا والد نے بطور وزیر بلدیات ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں نواب صاحب کا ساتھ دیا۔ عدم اعتماد کامیاب ہوگیا۔ جب میری پھوپھی کا رشتہ پیر صفی الدین شاہ سے ہوا تو نواب صاحب نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔(جاری ہے)
دادا کی وفات کے بعد ، اُنکے سوتےلے بھائی مخدوم غلام ےٰسےن شاہ گےلانی جن کی طبےعت مےں سادگی اور بھولپن تھا، سجادہ نشےنی کے سوال پر خاندان سے اختلاف کر گئے۔ مخدوم غلام ےٰسےن شاہ نے 1951ءکے انتخابات مےں دےوان غلام عباس بخاری کی مدد کی تھی، لہٰذا اس مسئلہ پر دےوان صاحب نے والد کو پےشکش کی کہ مےں اُنکی آپ سے مصالحت کروادےتا ہوں۔ والد نے دےوان صاحب کی اس تجوےز سے اتفاق کےا اور نتےجتاً ےہ مسئلہ خوش اسلوبی سے طے پاگےا ۔ اس طرح تاےا مخدوم شوکت حسےن تمام خاندان کی جانب سے متفقہ طور پر سجادہ نشےں مقرر ہوئے۔
تایا مخدوم شوکت حسین نے ہمیشہ والد کا ساتھ دیا اورزندگی بھر ان کے سیاسی فیصلوں کی حمایت کی۔ ان کی رفاقت انمول اور بے مثل تھی۔ انہیں 1945 ءمیں مسلم لیگ ضلع ملتان کا نائب صدر منتخب کیا گیا۔ اس وقت یہ تاثر عام تھا کہ مسلم لیگ ملتان صرف گیلانی خاندان کی جماعت ہے۔ اس تاثر کو ختم کرنے کیلئے تایا نے رضا کارانہ طور پر اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ 1949ءسے 1982 ءتک سجادہ نشین رہے۔ دین کی شبانہ روز تبلیغ کےساتھ ساتھ والد اور انکے چھوٹے بھائی سید فیض مصطفی کے شانہ بشانہ تعلیم کے میدان میں بھی انقلابی کارنامے انجام دیئے۔ انکے دور میں مریدوں کا حلقہ مزید وسیع ہوا۔
والد نے کئی خاندانوں کےساتھ روایتی تعلقات کو رشتوں میں بھی بدل دیا۔ انہوں نے اپنی ایک بھتیجی کی شادی سجادہ نشین درگاہ اوچ شریف مخدوم سید شمس الدین گیلانی کے بڑے بیٹے سید مختار حسن گیلانی اور دوسری بھتیجی کی شادی دربارحجرہ شاہ مقیم اوکاڑہ کے گدی نشین پیر سید اعجاز علی شاہ گیلانی سے کروائی۔ میری اور میری بہن کی شادی سجادہ نشین دربار پیر قطبیہ سندیلیانوالی پیر محل پیر سید اسرار حسین شاہ بخاری کی بیٹی اور بیٹے سے کروائی۔ میری بڑی بہن کی شادی اپنے بھتیجے سید وجاہت حسین سے کروائی جو بعد میں دربار پیر پیراں موسیٰ پاک شہید کے سجادہ نشین بنے۔
والد کا قول تھا کہ اگر کسی شخص کے ہاتھ میں شفا ہونے کے باوجود وہ کسی دوسرے شخص کو فیض یاب نہیں کرتا تو ایسا شخص خود بدنصیب ہے۔ والد کی یادداشت کمال کی تھی۔ انہیں ہزاروں لوگوں کے نام زبانی یاد تھے اور جب کبھی کسی تقریب میں لوگوں کو مدعو کرنا ہوتا تو بہت ہی کم وقت میں اپنی یادداشت سے لوگوں کے نام تحریر کرواا دیتے تھے۔
والد نے اپنے وزیر بننے کا واقعہ یوں سنایا کہ ایک مرتبہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب فیروز خان نون سے ملنے ان کے گھرگیا کہ تمہارے نانا مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ سے اچانک وہاں ملاقات ہوگئی۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں سردار محمد خان لغاری (سردار فاروق احمد خان لغاری کے والد) کو صوبائی وزیر بنوانے آیا ہوں۔ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ انہیں لغاری صاحب کے علاوہ میری بھی سفارش کرنی چاہئے تھی۔ جب میری ملاقات نون صاحب سے ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ تم وزیراعلیٰ پنجاب ہو اور مجھے اپنی کابینہ بنا کر دو۔ میں نے کہا کہ میں وزیراعلیٰ نہیں ہوں، آپ ہی ہیں اور یہ استحقاق بھی آپ ہی کا ہے۔ مگر وہ بضد تھے کہ کابینہ مجھے ہی بنانی ہے۔ میں نے کابینہ کےلئے پانچ نام تجویز کئے جن میں سردار محمد خان لغاری، رانا عبدالحمید ، مظفر علی قزلباش، علی اکبر خان اور شیخ مسعود صادق کے نام شامل تھے مگر جب کابینہ کا اعلان ہوا تو ایک نام کا اضافہ تھا اور وہ نام میرا تھا۔
والد نے 1953ءمیں فیروز خان نون کی کابینہ میں بطور وزیر صحت و بلدیات، حلف اٹھا۔ وزارت بلدیات عوام کے ساتھ رابطے اور مقامی سطح کے کام کروانے کے نکتہ نظر سے اہم ہے۔ 1956 ءمیں ماموں مخدوم زادہ سید حسن محمود نے صوبائی وزیر مغربی پاکستان بننے پر والد سے محکمے کے متعلق مشورہ مانگا تو والد نے انہیں بھی یہی محکمہ تجویز کیا اور وہ بلدیات کے صوبائی وزیر بن گئے۔ والد نے وزیر صحت کی حیثیت سے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کئی اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو) بنوائے جن میں ملتان، میانوالی، مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے ہسپتال قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ نشتر ہسپتال و میڈیکل کالج ملتان کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ میو ہسپتال لاہور اور ساملی سینی ٹوریم (ٹی بی ہسپتال) مری کی توسیع بھی ان ہی کے دور میں ہوئی۔
اس دور میں ڈاکٹروں کی بے حد کمی تھی اور دیہی علاقوں میں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس اہم انسانی مسئلے کے فوری حل کیلئے والد نے وکٹوریہ ہسپتال ، بہاولپور میں ایل ایس ایم ایف میڈیکل سکول کی بنیاد رکھی۔ میٹرک کے بعد اس سکول میں تین برس کا میڈیکل کورس کروایا جاتا تھا جس کے بعد دو برس تک دیہی علاقے میں خدمات انجام دینے کی لازمی شرط پوری کرنے پر متعلقہ امیدوار ایم بی بی ایس کے امتحان دینے کا اہل قرار پاتا تھا۔ ماموں سید حسن محمود اس دور میں بہاولپور ریاست کے وزیراعظم تھے۔ انہوں نے اس نیک کام کے لئے تمام بنیادی ضروریات بہم پہنچائیں۔ اور یوں ایک درد مند دل کی انقلابی سوچ نے نہ صرف دیہی علاقوں میں طبی سہولیات مہیا کردیں بلکہ ملک میں ڈاکٹروں کی شدید کمی دور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ملک میں اس سکیم کے تحت سینکڑوں ڈاکٹروں نے اپنی اعلیٰ قابلیت اور خدمات کی بدولت بڑا نام کمایا ان میں ملتان سے ہمارے فیملی ڈاکٹر محمد حسین ملک قابل ذکر ہیں۔ والد نے اپنے دور اقتدار میں عوام الناس کو روزگار فراہم کرنے کیلئے بھی دوڑ دھوپ کی۔ بطور وزیرصحت انہوں نے ایم بی بی ایس میں غریب لوگوں کے بچوں کو بھی داخلہ دلوا کر ڈاکٹر بنوایا کیونکہ اس وقت میڈیکل کالج کی نامزدگی گورنر نہیں بلکہ وزیر صحت خود کیا کرتا تھا۔
1953ءمیں والد کے پارلیمانی سیکرٹری چوہدری فضل الٰہی تھے جو بعد میں صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سردار عطاءمحمد خان لغاری محکمے کے سیکرٹری تھے جو بعد میں رکن صوبائی اسمبلی (ایم پی اے) پنجاب منتخب ہوئے اور سردار عاشق محمد خان مزاری محکمے کے ڈپٹی سیکرٹری تھے جو بعد میں رکن قومی اسمبلی (ایم این اے) منتخب ہوئے۔ والد کو اس حیثیت سے بھی یاد رکھا جاتا ہے کہ صوبائی وزیر صحت و بلدیات بننے پر 1954 ءمیں انہوں نے قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروائے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ہر ضلع میں ایک لائبریری ہو تاکہ عوام کی کتابوں تک رسائی ممکن بنائی جاسکے۔ اس سلسلے میں قلعہ، کہنہ قاسم باغ، ملتان میں ایک وسیع میونسپل لائبریری کا افتتاح کیا جو ملتان کیلئے ایک عظیم علمی خزانہ ہے۔ والد کچھ عرصہ امپروومنٹ ٹرسٹ(موجودہ وزارت ہاﺅسنگ) کے صوبائی وزیر بھی رہے۔ اس وقت انہوں نے گلبرگ، لاہور اور مری کو ترقی دلانے کیلئے خصوصی طور پر دلچسپی لی جس کی وجہ سے پور ملک سے لوگوں نے سرمایہ کاری کی اور کچھ ہی عرصے میں وہ سب سے زیادہ پررونق آبادیاں بن گئیں۔والد کے سابق گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان سے دیرینہ مراسم تھے۔ نواب صاحب مقامی طور پر پیر سید لعل بادشاہ گیلانی آف مکھڈ،کیمبل پور (اٹک)کے سیاسی حریف تھے۔ پیر صاحب کی سیاسی وابستگی ممتار دولتانہ سے تھی۔ ان کے بیٹے پیر صفی الدین شاہ گیلانی وائس چیئرمین ڈسٹرکٹ بورڈ ، کیمبل پور تھے۔ اس وقت تک ان سے میری پھوپھی کی شادی نہیں ہوئی تھی لہذا والد نے بطور وزیر بلدیات ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں نواب صاحب کا ساتھ دیا۔ عدم اعتماد کامیاب ہوگیا۔ جب میری پھوپھی کا رشتہ پیر صفی الدین شاہ سے ہوا تو نواب صاحب نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔(جاری ہے)