دنیا بھر میں سیاستدانوں کی سیاست کیا ہوتی ہے؟ کیسی ہوتی ہے؟ اس پر ہم لمبی چوڑی بات نہیں کر سکتے کہ ہمارے مبلغ علم جواب ہی نہ دے جائے! مگر وطن عزیز کی سیاست کو جو تھوڑی دیر کے لئے دیکھا اور بھگتا ہے اس پر اتنا ضرور لکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں بیان بازوں کی سیاست، بلند و بانگ دعوے کرنے والوں کی سیاست سے فضا اکثر مکدر ہی رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی تقدیر میں، نصیب میں ہی کچھ لکھا جاتا رہا ہے۔ اس طرح کے کافی خطوط جرنیلوں سے ملاقاتیں، وارداتیں، گھاتیں ہمیں بھی یاد آ رہی ہیں مگر تمام کچھ کو چھوڑ کر ہم ایک آدھ خط کا ہی ذکر کرنا چاہیں گے کہ یہ خط آجکل کافی حد تک نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں اور آج کے ڈائریکٹر، ایکٹر اس بارے میں کچھ کہنے سے احتیاط برت رہے ہیں۔ پہلا خط (ر) ائر مارشل اصغر خان نے پاکستان کے قومی اتحاد کا ایک ستارہ ہوتے ہوئے مسلح افواج کے سربراہ کو لکھا تھا اور یہ سربراہ ہمارے ذاتی ممدوح جنرل ضیاالحق تھے۔ جبکہ دوسرا خط ایک فاضل چیف جسٹس سجاد علی شاہ کا ہے موصوف نے یہ خط منتخب وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے خلاف تب کے مسلح افواج کے سربراہ جناب جہانگیر کرامت کو لکھا تھا کہ تب بھی کچھ قوتوں کا خیال تھا کہ جونہی یہ خط جہانگیر کرامت کے پاس پہنچے گا مسلح افواج فوراً کوئی فیصلہ کر لیں گی۔ ہم بھی ان خطوط کے لکھے جانے اور ان کے پس منظر سے تھوڑے بہت آگاہ ہیں۔ ایک خط تو (ر) ائر مارشل اصغر خان نے جیل سے لکھا تھا۔ اس کے ساتھ ہی راقم نے ایک نگران سابق وزیر اطلاعات مرحوم کو سپریم کورٹ کے احاطے میں بھاگتے اور یہ تاثر دیتے ہوئے دیکھا اور سُنا :
Mob is coming, Muob is coming
یہاں یہ بھی شاید لکھ دینا چاہئے کہ جو ہجوم تب آیا یا لایا گیا اس کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمہ کے بعد تقریباً تمام معززین مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئے تھے۔ اس وقوعہ کے موقع پر جناب نصراللہ دریشک بھی اپنی بڑی سی گاڑی میں موقع واردات پر موجود تھے۔ ایک اور بات بھی یاد آ رہی ہے کہ مبینہ ترک نیوز ایجنسی کے بیورو چیف وہی صاحب ہیں جو کئی دن تک وکیل نہ ہونے کے باوجود اسی طرح کے کالے کوٹ اور کالی ٹائی میں پھرتے رہے جو عام طور پر وکلا ہی پہن کے عدالتوں میں جایا کرتے ہیں۔ یہی وہ صاحب ہیں جو جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جنرل صاحب موصوف کے ارد گرد کافی دنوں تک دیکھے جاتے رہے ہیں اور یہی وہ صاحب ہیں جو جنرل صاحب کے ساتھ اس وقت کی تقریب میں کھڑے صاف نظر آتے ہیں جب جنرل صاحب نے اپنے لبرل ازم اور ترقی پسندی کا تاثر دینے کے لئے دو سفید چھوٹے کتے (کتُورے) اُٹھا کر تصویر بنوائی تھی اور تیسرے یہ صاحب بھی اس تصویر میں کتوں کے ساتھ ہی نظر آ رہے تھے۔ آج کے حالات میں ان خطوط کا تذکرہ محض اس لئے کر دیا کہ جو لوگ ایک عرصہ سے کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے میں مصروف ہیں اور آج کے آرمی چیف کو دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں اُن کا خیال ہے کہ کسی نہ کسی طرح ملک ایک مرتبہ پھر پٹڑی سے اُتر جائے مگر محسوس ہوتا ہے، نظر آ رہا ہے کہ ایسے تمام لوگ یہی سوال کرتے رہیں گے، اسی ٹوہ میں رہیں گے کہ
نامہ بر تُو ہی بتا تُو نے تو دیکھے ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں