8 اگست2011ءپاکستان کے ایک ایسے محب وطن، اسلام دوست اور قومیت پرست شخص کی رحلت کے بعد 56 ویں برسی کا دن ہے جس نے متحدہ پنجاب میں اردو کتابوں کے ہندو ناشرین کے خلاف طباعتی اور اشاعتی جہاد کیا اور اس میدان میں مسلمانوں کی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ یہ چودھری برکت علی تھے جو ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لاہور کے ٹاٹ سکولوں میں حاصل کی۔ میٹرک اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ سے 1917ءمیں پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے کر رہے تھے کہ برطانوی سامراج کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے کےلئے سیاست میں کود پڑے اور اس بات کی پرواہ نہ کی کہ ان کی تعلیم ادھوری رہ جائے گی اور انہیں ڈھنگ کی سرکاری ملازمت نہیں ملے گی۔ تحریک ترک موالات نے انہیں سرکاری نوکری سے ہی متنفر کر دیا تھا۔ انگریزی سامراج اور ہندوﺅں کی مسلم دشمنی کے خلاف ان کے دل میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ مسلمان ہونے کے ناتے انہیں یہ احساس بھی شدت سے ستانے لگا کہ مسلمانوں کی دینی اور درسی کتابیں بھی ہندو ناشرین شائع کر رہے ہیں۔ اشاعت کتب کے وسیع میدان پر ہندوﺅں کا غلبہ تھا اور وہ نصابی کتب میں ایسا مواد بھی شامل کر دیتے تھے جس سے ہندو دھرم کو بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر فروغ ملتا تھا۔ اس دور میں چودھری برکت علی متوسط طبقے کے مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت مجلس احرار کے رکن بن گئے اور دہلی دروازہ اور موچی دروازہ کے باہر سیاسی جلسوں میں دھواں دھار تقریر ہی کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے لاہور میں نصابی کتابیں چھاپنے کا ادارہ ”پنجاب بک ڈپو“ قائم کیا اور ابتدا میں ہی خواجہ دل محمد، چودھری محمد طفیل اور ناظر حسین قدوسی سے ایسی کتابیں، لکھوائیں جو نہ صرف نصاب کی ضرورتیں پوری کرتی ہیں۔ بلکہ ان میں اسلام کی تبلیغ اور انسانیت کی اصلاح کے مضامین بھی بڑے سلیقے سے پیش کئے گئے تھے۔ پنجاب میں اسلامیہ انجمنوں کے تحت چلنے والے سکولوں نے ان کتابوں کو زبردست پذیرائی بخشی اور پنجاب بک ڈپو تھوڑے سے عرصے میں نہ صرف مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ بن گیا بلکہ ان کی تقلید میں مسلمانوں کے کئی اور طباعتی ادارے بھی معرض وجود میں آ گئے اور نتیجہ یہ نکلا ہندو ناشرین کا کاروبار ماند پڑنے لگا۔اس نمایاں کامیابی نے چودھری برکت علی کے ولولے کو تیز کر دیا اور انہوں نے ادبی کتابوں کی اشاعت کا ادارہ ”مکتبہ اردو“ قائم کر لیا۔ کلیم احمد شجاع نے انہیں ادبی رسالہ ”ادب لطیف“ جاری کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ دونوں تجربے بے حد کامیاب رہے اور ملک کے بیشتر نامور ادیب بلاتمیزی مذہب ان دو اداروں سے وابستہ ہو گئے۔ ان میں مرزا ادیب، ممتاز مفتی، احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر، فکر تونسوی، علی عباس حسینی، ساحر لدھیانوی، عبداللہ ملک، حیات اللہ انصاری، خواجہ احمد عباس، راجندر سنگھ بیدی، قتیل شفائی، عارف عبدالمتین اور باری علیگ جیسے نامور ادیب شامل تھے جو اس دور میں انقلابی ادب پیش کر رہے تھے۔ اور چودھری برکت علی انہیں جرا¿ت مندی سے چھاپ رہے تھے۔ 1947ءمیں پاکستان معرض وجود میں آ گیا تو ہندو ناشرین ہندوستان چلے گئے لیکن اب مسلمان ناشرین نے اس میدان کو فتح کر لیا تھا۔ چنانچہ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف چودھری برکت علی خاندان سے چودھری نذیر احمد، چودھری بشیراحمد، حنیف رامے اور چودھری ریاض احمد جیسے نوجوان سامنے آئے اور متعدد نئے مکتبے--- یعنی ”نیا ادارہ“ مکتبہ جدید-- مکتبہ میری لائبریری اور قوسین وغیرہ معرض وجود میں آ گئے۔ چودھری برکت علی1902ءمیں پیدا ہوئے اور1952 میں فوت ہو گئے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے مسلمانوں کی فلاح کے کئی ادارے قائم کئے۔ بچوں کی تعلیم کےلئے مسلمان انجمنوں میں شرکت کی۔ نصابی اور ادبی کتابوں کی طباعت کو فروغ دیا اور فوت ہوئے تو مکتبہ اردو اور پنجاب بکڈپو جیسا ادارہ مستحکم کر کے چھوڑ گئے۔ جیسے اب خالد چودھری (ان کے فرزند) چلا رہے ہیں۔ ”ادب لطیف“ ملک کا قدیم ترین ادبی رسالہ ہے جسے ان کی صاحبزادی صدیقہ مرتب کرتی ہے۔ آئیے چودھری برکت علی کی برسی پر انہیں دعائے خیر سے یاد کریں۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین۔