چودھری برکت علی مرحوم کو یہ اعزاز اپنی زندگی میں ہی حاصل ہو گیا تھا کہ آزادی سے قبل انگریزی دور میں جب ادبی علمی، معلوماتی اور درسی کتابوں کے علاوہ دینی کتابوں کی طباعت و اشاعت پر ہندوﺅں کی اجاری داری تھی تو انہوں نے کتابی دنیا میں قدم رکھا۔ درستی کتابیں چھاپنے کا ادارہ ”پنجاب بک ڈپو“ قائم کیا اور اس شعبے میں جہاں نرائن دت سہگل، عطر چند کپور وغیرہ کو برتری حاصل تھی، ایک مسلمان تاجرِ کتب کا نقش قائم کیا۔ اللہ نے چودھری برکت علی کی شبانہ روز محنت کو کامیابیوں سے سرفراز کیا تو انہوں نے ادبی ادارہ ”مکتبہ اردو“ قائم کیا اور 1935ءمیں رسالہ ”ادبِ لطیف“ جاری کیا جو اپنی اشاعت کی ”ڈائمنڈ جوبلی“ منا چکا ہے اور اب تک جاری ہے۔ چودھری برکت علی ایک کسان گھرانے کے فرد تھے، ان کے دادا شمس الدین ایک سچے اور باعمل مسلمان تھے۔ اسلام کی محبت ان کی رگ و پے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، حج پر گئے تو غلام ہندوستان میں واپس نہ آئے۔ چودھری برکت علی کے والد چودھری محمد بخش اپنے ارائیں خاندان میں بہت نامور تھے۔ انہوں نے وقت کے تقاضوں کو سمجھا اور اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کیا۔ ان کے چار بیٹوں میں سب سے زیادہ ذہین اور علم دوست چودھری برکت علی تھے جنہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور فٹ بال اور ہاکی کے نمایاں کھلاڑیوں میں شمار ہوئے۔
گورنمنٹ کالج لاہور کی تعلیم نے چودھری برکت علی کا رُخ سیاست کی طرف موڑ دیا، انہیں دنوں ترکِ حوالات کی تحریک چل رہی تھی۔ برکت علی نے ایم اے کا امتحان دینے کی بجائے اس تحریک میں شرکت کی اور اپنے دل میں غلامی سے نجات حاصل کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ ان کو مسلمانوں کی پسماندگی اور سماجی زندگی میں ہندوﺅں کی برتری کا احساس بھی تھا۔ وہ مسلمانوں کے رہنما محمد علی جناح سے متاثر تھے لیکن ان کے دل میں انگریزی دشمنی کا جذبہ مجلسِ احرار نے پیدا کیا جس کے جلسوں میں چودھری برکت علی باغ شاہ محمد غوث (بیرون دہلی دروازہ) دھواں دھار تقریریں کرتے تھے۔
1929ءمیں انہوں نے درسی کتابوں پر ہندوﺅں کی اجارہ داری ختم کرنے کا ارادہ کیا اور پنجاب بک ڈپو قائم کیا اور مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کیلئے تعلیمی فلاحی ادارے قائم کرنے کی طرف پوری توجہ دی۔ اس مقصد کے حصول کیلئے انہوں نے ”مسلم تعلیمی مجلس“ کی بنیاد رکھی اور ملتان روڈ، مصری شاہ، موہنی روڈ اور اردو بازار میں اسلامیہ سکول قائم کئے۔ جہاںمسلمانوں بچوں کو اسلامی شعائر کے مطابق اعلیٰ تعلیم دی جاتی تھی اور قومی کی سچی خدمت کیلئے شخصیت سازی کی جاتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب بک ڈپو کی آمدنی کا کثیر حصہ مسلمانوں کے فلاحی اداروں پر خرچ کر دیا جاتا تھا اور چودھری برکت علی مسلمانوں کی سماجی ترقی کیلئے ان اداروں کی معاونت کرنا سعادت تصور کرتے تھے۔ چودھری برکت علی کی سیاسی اور معاشرتی و تہذیبی خدمات متنوع ہیں۔ تاہم میرا خیال ہے کہ ”مکتبہ اردو“ اور رسالہ ”ادبِ لطیف“ نے جو ادبی خدمات انجام دیں ان کا پلڑا بھاری ہے۔
”مکتبہ اردو“ نے ترقی پسند تحریک کے ممتاز ادیبوں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، میرزا ادیب، سعادت حسن منٹو، اوپندرا ناتھ اشک اور غلام عباس و بلونت سنگھ کی کتابیں شائع کیں۔
رسالہ ”ادبِ لطیف“ نے اردو اب کو سینکڑوں نئے لکھنے والے عطا کئے جن کی ادبی تربیت ”ادبِ لطیف“ مدیران میرزا ادیب، عارف عبدالمتین، ممتاز مفتی، قتیل شفائی، انتظار حسین، قاسم محمود، ناصر زیدی، اظہر جاوید اور شاہد بخاری نے کی۔ ”ادبِ لطیف“ اب چودھری صاحب کی زیرک اور ہونہار بیٹی محترمہ صدیقہ بیگم نے شائع کرتی ہیں اور ان کی معاونت ظفر چودھری اور خالد چودھری کرتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ چودھری برکت علی کا سارا خاندان اب کتابی دنیا سے وابستہ ہے۔ مکتبہ اردو کی نگرانی افتخار چودھری اور پنجاب بک ڈپو کی نگہداشت خالد چودھری کرتے ہیں جو اب بابائے اردو بازار تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ان کے بھتیجے نذیر احمد نے ”نیا ادارہ“ اور بشیر احمد نے ”مکتبہ میری لائبریری“ قائم کیا۔ حنیف رامے نے مکتبہ البیان قائم کیا اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے عہدے تک پہنچے۔ ریاض احمد چودھری ”مکتبہ قوسین“ چلا رہے ہیں اور یہ کہنا مناسب ہے کہ چودھری برکت علی کے فیضان سے کاشتکاروں کا یہ خاندان اب علمی اور ادبی خدمات انجام دے رہا ہے۔
چودھری برکت علی 8 اگست 1982ءکو معمولی علالت کے بعد وفات پا گئے لیکن ان کے لگائے ہوئے ادب کے پودے اور ادبی ادارے برگ و بار لا رہے ہیں اور چودھری صاحب کے روحانی فیض کو اکیسویں صدی تک لے آئے ہیں۔ حق مغفرت کرے چودھری برکت علی ملک و قوم اور علم و ادب کے سچے خدمت گزار تھے۔ خالد چودھری اپنے والد مرحوم پر ایک کتاب شائع کر رہے ہیں جس کی تالیف و تدوین کا اعزاز اس ناچیز انور سدید کو حال ہوا ہے۔