دل و دماغ تذبذب کا شکار ہیں کہ عید مبارک کس کو کہوں حالات کی پسی ہوئی عوام کو یا حکمران طبقہ کو اسی سوچ میں مبتلا ہوں کہ ان دونوں میں عید مبارک کا حق دار کون ہے؟ عید کا معنی خوشی کا دن ہے۔ عوام کو تو کی سالوں سے ایک دن کیا ایک لمحہ بھی خوشی و سکون کا نصیب نہیں ہوا اور حکمران طبقہ کا ہر روز ہی روزِ عید ہوتا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی نے اتحادیوں سے مل کر جس طرح ملکی اداروں کو تباہ و برباد کیا اور عوامی مسائل کو توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھا۔ اب پاکستانی عوام کسی ایسے ”مسیحا“کے انتظار میں تھے جو ان کے دکھوں، تکلیفوں کا مداوا کرے انکے مسائل کو حل کرے بیروزگاری و مہنگائی ختم کرے، دہشتگردی اور لوڈشیڈنگ جیسی لعنتوں سے ان کو نجات دلائے اور خودداری و جرا¿ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت سے اپنے اٹوٹ انگ کشمیر کے حصول کیلئے کوئی راستہ نکالے۔ بہرحال گزشتہ ”جمہوریت“ کا وقت ختم ہوا۔ میاں نواز شریف کی جماعت میدان میں آئی۔ میاں صاحب نے اپنی حسبِ روایت ”شرافت“ کے لبادے میں حالات کی ماری ہوئی اور سابقہ حکومت کی ڈنگی ہوئی عوام کو ”سہانے خواب“ دکھائے اور دلکش وعدے کئے کہ مجھے بس حکومت دلا دو اور مجھے وزیر اعظم بنوا دو میں راتوں رات آپکے تمام مسائل حل کر دونگا میاں صاحب الیکشن مہم میں جلسوں میں ”جذباتی“ انداز میں عوام سے ہاتھ اٹھا اٹھا کر پوچھتے رہے کہ بتا¶ آپکے ہاں بیس بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے ناں، بیروزگاری میں آپ پس رہے ہیں ناں، مہنگائی میں آپ پس رہے ہیں ناں، میاں صاحب کو ہر ایک بات کا عوام کی طرف سے ہاں میں جواب ملتا تو میاں صاحب فرماتے کہ فکر نہ کرو آپکے سب مسئلے حل ہونگے۔ بہرحال عوام نے میاں صاحب کا بھرپور ساتھ دیا۔ کامیابی کے فوراً بعد میاں صاحب کے انداز ہی بدل گئے وہ اپنے تمام وعدوں سے یکسر منحرف ہو گئے۔ اب حکومت کو بنے دو ماہ سے زیادہ دن گزر چکے ہیں۔ میاں صاحب نے پہلا تحفہ عوام کو بے تحاشا مہنگائی کی صورت میں دیا دو ماہ سے مسلسل مہنگائی ہو رہی ہے۔ عوام کی روزمرہ کی اشیاءدال، آٹا وغیرہ پر بھی بھاری ٹیکس لگا دیا گیا۔ پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ اور لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے کی بجائے بجلی کے بلوں میں روز بروز اضافہ کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے والوں نے کشکول بھی چھوٹا سمجھ کر توڑ دیا۔ عوام پر بھاری ٹیکس بھی لگا دیئے اور آئی ایم ایف سے کھربوں قرضے کا معاہدہ بھی کر لیا۔
لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے وعدوں کے ساتھ ووٹ حاصل کرنے والوں نے چار سال کا وقت دیدیا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کو اب عوام کے سامنے آنا بھی گوارا نہیں۔ موصوف فرماتے ہیں کہ عوام کے پاس جانے کےلئے کچھ ہو تو جا¶ں تو عرض ہے کہ زرداری کے وعدوں کو پانچ سال تنقید کا نشانہ بنانے والوں کو اپنے سارے وعدے شاید اب یاد بھی نہ ہوں۔ نواز شریف سے وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان زمین آسمان کا فرق دکھائی دے رہا ہے۔ کالم نگاروں نے لکھا کہ نواز شریف کی ہنسی ملکی مسائل کی وجہ سے مفقود ہو گئی ہے۔ چین کے دورے پر اور پھر جان کیری کے ساتھ ملتے ہوئے وزیر اعظم کی ہنسی رکنے کا نام ہی نہیں لیتی، نفرت ہے تو صرف عوام سے جن سے اب بات کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ عوام کی اکثریت ان دو ماہ میں ہی نواز شریف کی حکومت سے مایوس دکھائی دینے لگی ہے۔ یاد رکھیے کہ ان پانچ سالوں میں بھی ہمیں پورا یقین ہے کہ کشمیر کیلئے ایک فیصد بھی پیش رفت نہیں ہو گی کیونکہ نواز شریف تو ویسے ہی بھارت پر فریفتہ ہو چکے ہیں۔ چین جا کر بھی چین کی نیند نہ سو سکے وہاں بھی بھارت کی یاد میں تڑپتے رہے اور موجودہ صدر ممنون حسین بھی بھارت (آگرہ) سے ہیں۔ نواز شریف صاحب جاتی عمرہ (بھارت) سے ہیں۔ شاید ممنون حسین کو صدر بھی بھارت دوستی کی بنیاد پر چنا گیا ہو۔ بہرحال اب کشمیر کےلئے ان دونوں کی موجودگی میں ”جدوجہد“ کا سوچنا بھی گناہ ہو گا کیونکہ صدر اور وزیر اعظم صاحب دونوں پہلے ہی دل و جان سے بھارت کے ممنون و احسان مند ہیں۔ ہاں لاحاصل مذاکرات کا ڈرامہ رچایا جاتا رہیگا اور یہ آوازیں مجھے اور آپ کو سنائی دیتی رہیں گی۔ گورنر بھی امپورٹ کر لیا گیا۔ اربوں کے بل بھی ادا ہونگے۔ عوام کے نام پر بھی اربوں روپے جاری ہونگے مگر عوام کے مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔ اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہے۔ اسکے حصول کےلئے عوام سے جھوٹے وعدے کرنا، عوام کو شیشے میں اتارنا ۔ گزشتہ دنوں حمزہ شہباز کا ایک بیان ہماری نظروں سے گزرا ”کوئی ہماری کارکردگی سے بے شک مطمئن نہ ہو ہمارا ضمیر مطمئن ہے“۔ حمزہ شہباز کو کون بتائے کہ آپ جیسے اہل ثروت کے ضمیر تو پیدائشی مطمئن ہوتے ہیں۔ اب نواز شریف عمرہ کی ادائیگی کےلئے فیملی سمیت تشریف لے گئے ہیں ہمیں یقین ہے کہ میاں صاحب وزیر اعظم کی حیثیت سے نہیں ذاتی خرچ پر فیملی کو لے گئے ہونگے کیونکہ قومی خزانہ عوام کی امانت ہے اور قومی خزانے سے عمرہ پر جانا بھی کرپشن اور بددیانتی ہے اور میاں صاحب نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ نہ خود کرپشن کرونگا اور نہ کرنے دونگا۔ بہرحال امید کی دنیا ابھی باقی ہے۔ 66سال سے امید پر ہی عوام جی رہے ہیں۔ آخر میں ہماری طرف سے پاکستانی عوام کو دل کی گہرائیوں سے عید کی خوشیاں مبارک ہوں۔