انسان دنیا میں آتا ہے اور زندگی کے انمول لمحے گزارتا ہوا اپنی ذمہ داریاں نبھاتا ہوا یہاں سے دور کسی نئی دنیا اور کسی نئی زندگی کی طرف نکل جاتا ہے یہ سلسلہ زندگی و موت تو صدا سے چلا آ رہا ہے اور صدا ہی چلے گا مگر دنیا میں بعض لوگ زندگی گزارتے ہوئے خود زندگی کی علامت ہوتے ہیں وہ اپنی زندگی کو اس لحاظ سے اور اس طرز پر جیتے ہیں کہ روشنی کا مینار بن جاتے ہیں۔ آبروئے صحافت، ایک محب وطن پاکستانی، سچ اور حق گوئی کیلئے مشہور، عاشق رسولؐ جناب مجید نظامی کو زندگی سے موت تک کا سفر کرتے ہوئے سب نے دیکھا اس عظیم شخص کو موت کیلئے وہ رات نصیب ہوئی جس کی سچے مسلمان دعا کرتے ہیں ان کی صحافت کا سفر مختلف مراحل سے گزرتا ہوا بالآخر اس عظیم رات کی چکا چور روشنیوں میں اختتام پذیر تو ہو گیا مگر وہ اپنے پیچھے جو کچھ بھی مادی دولت چھوڑ گئے وہ کچھ بھی نہیں اس دولت کے مقابلہ میں جو انکے کردار کی دولت ہے کردار کی بنیادی نشانی سچ گئی ہے جو ان کی ذات میں خمیر کی طرح رچی بسی ہوئی تھی۔ آج کے دور میں کسی سچے شخص کو تلاش کرنا انتہائی مشکل نظر آتا ہے مگر ڈاکٹر مجید نظامی نے ذاتی زندگی میں اور صحافتی زندگی میں کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیا اور انکے نزدیک خواہ ایوب خان ہوں یا وقت کے عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق جیسے سخت مزاج آمریتوں یا مشرف جیسے مکار آمر انہوں نے ہر ایک کے سامنے کلمہ حق کہا اور ان کو ان برائیوں سے روکا جو ہمارے ملک کیلئے خطرناک و نقصان دہ تھیں گویا صحافت کے میدان میں وہ ایک آئی کون کا درجہ اختیار کر چکے تھے انکا صحافت میں اور زندگی میں ایک ہی گروپ تھا اور وہ تھا ’’پاکستان‘‘ پاکستان سے محبت کا یہ حق ہر کسی کو ہے مگ نبھانے والے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں ہمارے سیاسی لیڈروں کو ہی لے لیں پاکستان کے نام پر سیاست کرتے ہیں اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں اور جن کے پاس اقتدار نہیں وہ اس کیلئے سنہرے خواب دیکھتے ہیں الٹی سیدھی جدوجہد کرتے ہیں مگر وہ بات نہیں کرتے جو ’’پاکستانیت‘‘ کی بات ہو کیا اکیلے ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم کو ’’کالا باغ ڈیم‘‘ کی ضرورت تھی کہ وہ ہر وقت یہی کہتے رہتے۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر ہم نے پاکستان کی زمینوں کو مکمل سیراب کرنا ہے تو کالا باغ ڈیم کا بننا ضروری ہے وگرنہ دوسری صورت میں حکمرانوں سمیت سب صحرا میں رہنے کیلئے تیار ہو جائیں۔ دوسری طرف ’’کشمیر اور کشمیری مسلمانوں کا درد‘‘ کیا ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کیلئے ہی تھا حکمرانوں سیاستدانوں، ٹیکنو کریٹس سمیت کوئی بھی طبقہ کشمیر کا نام ہی نہیں لیتا اور روایتی سفارت کاری میں حرف قدیم کے طور پر استعمال ہوتا ہے مگر ڈاکٹر صاحب مرحوم آخری وقت تک کشمیر کے مسئلہ کو ہر طرح زندہ رکھنے اور اسے حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہے ایکے اس سچائی پر مبنی موقف کیخلاف ’’امن کی آشا‘‘ نے بھی جلوہ گر ہونے کی کوشش کی مگر اس موقف میں سچائی نہیں ایک خواہش کا اظہار تھا مگر ڈاکٹر صاحب کے موقف میں سچائی ہی سچائی تھی جسے کشمیری عوام کبھی فراموش نہ کر پائیں گے وہ اگر ہندوستان کو پاکستان کا ازلی دشمن سمجتھے تھے تو یہ حقیقت بھی بہت بڑی سچائی ہے ان کا ضیاء الحق کو صاف جواب کہ ’’اگر مجھے دہلی لے کر جانا ہے تو ٹینک پہ چڑھ کر چلو‘‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے حکمران بھارت کی دشمن نواز پالیسی کو بالائے طاق رکھ کر اس سے دوست بڑھاتے ہیں جب کہ محب وطن لوگ بھارت کو ازلی دشمن ہی سمجھتے ہیں۔ زندگی کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک اخبار کے مالک کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہر ایک کو ملک سے محبت سکھائے مگر ڈاکٹر صاحب کو بجاطور پر ہمارے دوست ڈاکٹر مجاہد کامران نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی جس پر میں نے لکھا تھا کہ یہ ڈاکٹر مجاہد کامران کا اعزاز ہے کہ ڈاکٹر مجید نظامی نے یہ ڈگری قبول کی میرے خیال میں جس شخص نے نظریہ پاکستان کی ترویج کیلئے اپنا تمام وقت، وسائل صرف کئے ہوں اسے اس سے بھی اعلیٰ ڈگری کا حق دار قرار دیا جانا چاہئیے۔ کیوں اس لئے کہ پاکستان میں رہنے والے سندھی، بلوچی، پختون، پنجابی وغیرہ ہو چکے تھے پاکستانی تو کہیں نظر ہی نہ آتے مگر ڈاکٹر مجید نظامی نے نظریہ پاکستان کو اجاگر کرنے اور اسے ہر سطح کے عوام حتی کہ چھوٹے چھوٹے بچوں میں بھی پہنچانے کا اہتمام ہر صوبہ میں کیا اور یہ کوئی اس ملک کیلئے کم خدمت نہیں کہ بچہ بچہ پاکستان کیلئے سوچتا اور جانتا ہے۔ پھر غور کریں بنگلہ دیش کو بنانے والے ادھر بھی ’’شہید‘‘ بن گئے اور ادھر بھی ’’شہید‘‘ مگر ڈاکٹر مجید نظامی کی پاکستان سے اور متحدہ پاکستان سے دلی محبت یہاں بھی نظر آتی ہے وہ آخری وقت تک بنگلہ دیش کے محصورین کے لئے نہ صرف کام کرتے رہے بلکہ ان کی شدید خواہش رہی کہ یہ دونوں بھائی کنفیڈریشن کی شکل میں مل جائیں۔ ان کے بہت سے اوصاف تھے مگر ان کا ’’امین‘‘ ہوتا ان کا ’’صادق‘‘ ہونا انہیں ملک کا سربراہ بھی بنا سکتا تھا مگر شاید پاکستان کو کسی امین و صادق کی نہیں بلکہ دوسری قسم کے حکمرانوں کی ضرورت ہے وہ اس بات پر ہمیشہ نالاں رہتے کہ ہمارے لوگ ہندوستان جا کر ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں۔ میں جب 2004ء میں نئی دہلی گیا تو وہاں ہر شخص کی زبان پر یہی تھا کہ یہ تقسیم غلط ہو گئی ہمارا تو سارا کچھ ایک جیسا ہے۔ راقم الحروف نے چیئرمین انڈوپاک فلو ملز کنفیڈریشن بننا تھا حالات اچھے تھے دوستی تھی اس ماحول میں بھی دہلی کے انٹرکانٹی نیشنل میں 450 ہندو فلور ملرز کی موجودگی میں مجھے ان کو بتانا پڑا کہ یہ تقسیم صحیح ہوئی ہے کیونکہ اسی ہال میں 450 میں سے ایک فلور ملر مسلمان ہے اور اس کی حالت میرے ملک میں میرے کسی ملازم جیسی ہے اس لئے تقسیم غلط نہیں بالکل صحیح ہوئی ہے اور ہم سے اثاثوں کی تقسیم سمیت پانی جیسے مسائل حل کرنے کی بات کیا کرو۔ سارا بھارتی میڈیا ان باتوں کو دو دن تک اٹھاتا رہا اور کہاں آ کر جب نوائے وقت میں یہ کالم ’’پاکستان اور بھارت کا ہنی مون ختم ہونے والا ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تو محترم ڈاکٹر صاحب نے مجھے دفتر بلا کر اس کو پسند کیا اور شاباش دی اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب ایک اخبار کے مالک ہوتے ہوئے اپنی اخبار کا ہر لفظ پڑھتے تھے اور مجھ ناچیز کا کالم بھی گویا وہ شخص ہم سے بچھڑ گیا۔ وہ ایک مکمل زندگی تھا اور لوگ کسی ایک شعبے کا Icon ہوتے ہیں وہ پاکستان کا Icon، پاکستان کی صحافت کے Icon، کشمیر کار کے Icon، پانی کیلئے کالا باغ ڈیم کی جدوجہد کے Icon، حکمرانوں کو سیدھا راستہ دکھانے کے Icon، اور تحریک پاکستان و نظریہ پاکستان کے فروغ کے Icon گویا ہر شعبہ زندگی کے Icon تھے جب بھی ملتے ایک ہی بات کہتے صوفی صاحب آٹا ملدا رہے گا کہ نہیں جیہہ نہ ملیا تہ دھانوں نہیں چھڈنا‘‘ اب وہ آواز نہیں آئے گی۔