14 اگست سے پہلے کچھ ہونے والا ہے؟

Aug 08, 2014

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

رانا ثنااللہ کے جانشین وزیر قانون رانا مشہود نے مجھے کہا کے میں چھ یا سات اگست کو تم سے ملوں گا۔ رانا مشہود ابھی تک وزیرتعلیم بھی ہیں۔ اس لئے ان کا موازنہ رانا ثنااللہ سے نہ کیا جائے۔ وہ نہ آ سکے تو میں نے سوچا کہ میرا گھر وحدت کالونی میں ہے۔ راستے میں طاہرالقادری کا منہاج سیکرٹریٹ بھی پڑتا ہے۔ تو کہیں انہیں بھی پولیس والوں نے روک نہ لیا ہو۔ رانے مسلم لیگ ن میں بہت ہیں اور میرے لئے کسی نہ کسی حوالے سے ان کے لئے نرم گوشہ ہے مگر گوشہ عافیت کہاں ہے؟ پہلے منہاج سیکرٹریٹ میں بیرئیر ہٹانے کے لئے پولیس بھیجی گئی۔ اب بیریئر لگانے کے لئے وہی پولیس آ گئی ہے۔ عمران اور قادری صاحب نے بھی راستے بند کرنے کی دھمکیاں دیں مگر یہ دھماکہ خود حکومت نے کر دکھایا ہے کہ تم تکلیف نہ کرو۔ یہ تکلف ہم کر دیتے ہیں۔ منہاج سیکرٹریٹ میں پولیس نے 14لاشیں گرائیں۔ 80 سے زیادہ زخمی کئے مگر اصل ورثاء کی طرف سے مقدمہ درج نہیں ہوا اور علامہ طاہرالقادری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ گرفتاری نہیں ہو گی۔ گرفتاری ہوئی تو پھر گرفتاریاں ہوں گی۔ صورتحال بھی گھمبیر اور سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ دونوں طرف سے بیانات کی فائرنگ کی جا رہی ہے۔ زخمی بے چارے عوام ہوتے ہیں۔ مرتے بھی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ 14 اگست سے پہلے ہی کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ کچھ ہونے کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر ایک افراتفری ہنگامہ خیزی اور کھلبلی ماڈل ٹائون منہاج سیکرٹریٹ میں بھی پولیس یہ کرنے نہ آئی تھی جو ان سے ہو گیا۔ منہاج سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون کا نام جلیانوالہ ٹائون ہونا چاہئے۔ یہ جملہ چودھری شجاعت کا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے اس کی اہمیت اتنی ہے کہ 14اگست سے پہلے 10اگست کو یوم شہدا منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس میں شمالی وزیرستان میں شہید ہونے والے فوجی جوانوں کو شامل کیا جا رہا ہے۔ تو غزہ کے شہید بچوں کو بھی ساتھ ملا لیا جائے۔ 10اگست کو بہت بڑا اکٹھ ماڈل ٹائون منہاج سیکرٹریٹ میں کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ علامہ صاحب کو معلوم تھا کہ اس کے لئے پولیس کوئی گڑبڑ کرے گی۔ اور اس نے کر دی۔ گھروں پر چھاپے گرفتاریاں اور کریک ڈائون۔ تو علامہ صاحب نے کہا کہ جس گھر میں چھاپہ پڑے تو پھر ان پولیس والوں کے گھروں میں پانچ سو ہزار کا جتھہ بنا کے گھس جائو مگر گھر کی عورتوں اور بچوں کا خیال رکھا جائے۔ لاہور اور غزہ میں کچھ فرق رہنے دیا جائے۔ یہ التجا دونوں سے ہے۔ حکومت والوں اور سیاست دانوں سے سب سے اچھا اقدام چودھری صاحبان پرویز الٰہی اور شجاعت صاحب کا ہے کہ وہ ماڈل ٹائون تک طاہرالقادری سے ملنے کے لئے پیدل چل کے گئے۔ یہ پیغام اپنے لوگوں اور حکمرانوں کے لئے ہے۔
عمران نے کہہ دیا کہ ایک لاکھ موٹر سائیکلیں اسلام آباد پہنچیں گی۔ تو پولیس والوں کی موجیں لگ گئیں۔ انہوں نے ابھی سے ہر موٹر سائیکل والے کو روکنا شروع کر دیا ہے۔ جس موٹر سائیکل پر عورت بیٹھی ہو اس کے لئے خاص توجہ دی جاتی ہے کہ لڑکیاں اور عورتیں عمران خان کے کارواں میں زیادہ آتی جا رہی ہیں۔ عمران کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہہ دے کہ ایک لاکھ میں سے آدھی موٹر سائیکلیں میری خواتین چلا کے لائیں گی۔ ان کے پیچھے بھی ایک عورت بیٹھی ہو گی۔ کسی جوان پر پابندی نہیں۔ اس طرح رش بڑھ جائے گا۔ اس موقع پر لمحۂ موجود میں پاکستان کے سب سے بڑے مزاح گو نامور اور بہت مقبول اور محبوب شاعر انور مسعود کا ایک قطعہ یاد آیا جو ایک ٹریفک سارجنٹ اور سپاہیوں کے حوالے سے ہے جو موٹر سائیکل پکڑنے اور پیسے پکڑنے کے ماہر ہیں۔ انہیں اس کام کے لئے 102 طریقے آتے ہیں:
آپ بے جرم یقیناً ہیں مگر یہ فدوی
آج اس کام پہ مامور بھی مجبور بھی ہے
عید کا روز ہے کچھ آپ کو دینا ہو گا
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
عید سے پہلے تو عید کا سنا تھا۔ یہ عید کے بعد عید کا موقع اب آیا ہے۔ اب قربانی والی عید بھی اتنی دور نہیں ہے اور شیخ رشید کہتے ہیں کہ عید سے پہلے قربانی ہو گی۔ قادری صاحب نے 31اگست کی تاریخ دی ہے اور عمران خان جمہوری بادشاہت کے خاتمے کے لئے 14اگست پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ 14اگست یوم آزادی ہے۔ ابھی تک ہم آزادی اور جمہوریت کے حوالے سے ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ عمران خان بھی ذاتی جمہوریت پر ایمان رکھتا ہے۔ خود کو اتنا آزاد سمجھتا ہے کہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ سب لوگ میری غلامی کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ سیاست صرف یہ ہے کہ مجھ سے محبت کی جائے اور مجھے وزیراعظم بنایا جائے مگر خدا کی قسم یہ شخص وزیراعظم بن کے لوگوں کو جس ذلت اور اذیت کا شکار بنائے گا۔ اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملے گی۔ وہ اب بھی خیبر پختون خواہ کا وزیراعظم اپنے آپ کو سمجھتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سمجھاتا ہے کہ میں وزیراعظم نہیں ہوں مگر مجھے وزیراعظم ہی سمجھو۔
وہ پہلے بھی طاہرالقادری سے اس لئے سمجھوتہ نہ کر سکا اور اب بھی نہیں کر سکا کہ وہ وزیراعظم کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ یہ تلواریں چلیں گی اور عام لوگوں کے گلے کاٹے جائیں گے۔ خون بہے گا۔ قیامت ہو گی۔ قیامت سے پہلے قیامت۔ یعنی الیکشن سے پہلے الیکشن۔ قیامت سے پہلے عمران کو وزیراعظم بننے کا موقعہ نہیں ملے گا۔ لہٰذا قیامت لانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ میرے خیال میں علامہ طاہرالقادری عمران سے لاکھ درجے بہتر آدمی ہے۔ مگر انہیں ڈیل کرنے کے لئے ’’صدر‘‘ زرداری کی شاگردی اختیار کرنا پڑے گی اور نواز شریف وزیراعظم ہے۔ وہ شاگرد کیسے بنے گا۔ خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ہم جمہوریت کے تحفظ کے لئے حاضر ہیں مگر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کام خراب کر رہے ہیں۔ اس کا اشارہ خواجہ سعد رفیق کی طرف ہے تو وہ تو آج کل بہت مناسب اور صلح جُو کل قسم کا انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ان کا اشارہ پرویز رشید کی طرف ہے تو ان کے بیانات  کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ لوگ انہیں نواز شریف کا مولانا کوثر نیازی کہتے ہیں۔ کوثر نیازی کے ساتھ بھی میرے اختلافات تھے۔ وہ جب اقتدار میں نہ رہے تو میرے گھر آ گئے تھے۔  شیخ رشید وزیراطلاعات نجانے کس ردعمل میں بنے تھے۔ مگر کبھی ردعمل ردی عمل بھی بن جاتا ہے۔ بہرحال شیخ صاحب بہت بہتر وزیر شذیر تھے۔ مجھے حبیب جالب کی نظم یاد آ ہی ہے جو صدر ایوب کے وزیراطلاعات کے بارے میں تھی۔
یہ ترا وحید خان، دے رہا ہے جو بیان
اس سے آگے جو اشعار ہیں میں وہ لکھنا نہیں چاہتا۔
اس موقع پر حمید نظامی مجید نظامی کے دوست بے پناہ خطیب شاعر اور ادیب شورش کاشمیری کا یہ جملہ سن لیں ’’تمام راستے بند کر دو مگر تم سوچ اور خیال کے راستے بند نہیں کر سکتے۔ حکمرانوں کو ہمیشہ رشتہ دار عزیز مرواتے ہیں۔‘‘ میرا اشارہ اسحاق ڈار کی طرف نہیں ہے؟ اور یہ بات شورش نے بھٹو صاحب سے کہی تھی ’’اقتدار میں کبھی بھی اپنے آپ کو مضبوط نہ سمجھو۔ تم نے لوگوں کی محبت دیکھی ہے نفرت نہیں دیکھی۔‘‘ پھر اس نے یہ بھی دیکھ لی۔ اس کے جنازے میں اتنے لوگ بھی نہ تھے جو سندھ کابینہ میں ہیں۔ نواز شریف نے بھی دیکھی ہے۔ جن لوگوں نے منتخب کر کے انہیں وزیراعظم بنایا ان کے اقتدار کے خاتمے پر انہی لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔
چودھری شجاعت کا ایک اور دلچسپ جملہ۔ کسی سیاسی حوالے کے بغیر لطف لیں۔ ’’سب سیاستدان آن بورڈ اور سب لوگ آن روڈ ہیں‘‘ یہ نجانے کس نے کہا۔ غالباً طاہر قادری نے۔ ’’اقتدار اور کاروبار کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا چاہئے۔‘‘ آخر میں یہ بھی سن لیں۔ عمران خان طالبان کا مغربی روپ ہیں۔ ان سے نبٹنے کے لئے اس کی فطرت اور ذہنیت کو سامنے رکھنا بڑا ضروری ہے۔ مذاکرات اور آپریشن یہ دونوں کام کئے جا رہے ہیں۔ اسلام آباد میں سویلین مارشل لا لگا دیا گیا ہے۔ اللہ خیر کرے۔

مزیدخبریں