ملک دشمنی پر مبنی کسی سیاسی ایجنڈے کی کس قانون کے تحت اجازت دی جا سکتی ہے؟

متحدہ کا بھارت سمیت 55 ممالک کے سفارتخانوں کو مدد کیلئے مراسلہ اور سندھ اسمبلی میں الطاف حسین کیخلاف قرارداد


ایم کیو ایم (متحدہ) کی جانب سے کراچی میں کارکنوں کی گمشدگی اور گرفتاریوں کا نوٹس لینے کیلئے بھارت سمیت 55 ممالک کے ہائی کمیشن اور سفراء کو ای میل کے ذریعے بھجوائے گئے مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنوں کو سفارتی اثرورسوخ استعمال کرکے بازیاب کرایا جائے۔ خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے 12 کارکن پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں‘ کارکنوں کی جانوں کو خطرہ ہے جبکہ اس طرح کارکنوں کو تحویل میں رکھنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کیخلاف ہر فورم پر آواز اٹھائی جائیگی۔ یہ خط بھارت کے علاوہ امریکہ‘ برطانیہ‘ چین‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور عرب ریاستوں کے سفارت خانوں کو بھی بھجوایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکن معصوم اور بے گناہ ہیں جنہیں تحویل میں لیا جانا غیرقانونی ہے۔ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے بقول یہ خط صرف بھارت نہیں بلکہ کئی ممالک کے سفارت خانوں کو بھیجا گیا ہے اس لئے حکومت کی جانب سے صرف بھارت کو لکھا گیا خط سامنے لانا بدنیتی ہے۔ ایم کیو ایم کے ترجمان کے مطابق بھارت سمیت تمام سفارت خانوں کو لکھے جانیوالے خط کی کاپیاں وزیراعظم پاکستان‘ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف کو بھی بھیجی گئی ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ‘ یورپی یونین اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھی خطوط ارسال کئے گئے ہیں تاہم ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر فاروق ستار نے دعویٰ کیا ہے کہ کارکنوں کی گرفتاری پر کسی کو خط نہیں لکھا گیا۔ انکے بقول بھارتی ہائی کمشنر کو خط بھیجنا کسی رہنما کی تکنیکی غلطی ہو سکتی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ایم کیو ایم کا بھارتی ہائی کمشنر کو خط لکھنا ملک دشمنی ہے اور ایسا کرنیوالوں کو وہ پاکستانی نہیں سمجھتے۔
ایم کیو ایم (متحدہ) کی قیادت کی جانب سے اپنے کسی معاملہ میں بھارت کو مدد کیلئے آواز دینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے‘ اس حوالے سے ایم کیو ایم کے برطانوی شہریت رکھنے والے جلاوطن لیڈر الطاف حسین کی متعدد تقاریر ریکارڈ پر موجود ہیں جبکہ وہ چند سال قبل دہلی میں منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران بھی یہ کہہ کر بھارت کو امداد کیلئے پکار چکے ہیں کہ اگر کل کو کراچی میں مہاجروں پر کوئی افتاد ٹوٹی تو کیا بھارت انہیں واپس قبول کرلے گا۔ انکے گزشتہ ہفتے کے امریکی ریاست ڈیلاس میں متحدہ کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب میں تو بھارت کو اس حوالے سے بزدلی کا طعنہ دیا گیا کہ وہ مہاجروں کے قتل عام پر خاموش بیٹھا ہے۔ اسی خطاب میں انہوں نے اپنے پارٹی کارکنوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اقوام متحدہ‘ بھارتی سفارت خانہ‘ یورپی یونین اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دفاتر کے باہر مظاہرے کریں اور انہیں متحدہ کے کارکنوں پر مظالم بند کرانے کیلئے مدد کا کہیں۔ انکے یہ بیانات ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے حوالے سے اس لئے بھی تشویشناک ہیں کہ کراچی میں جاری رینجرز کے ٹارگٹڈ اپریشن کے دوران متحدہ کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے کے دوران وہاں سے بھارتی ساختہ اسلحہ برآمد ہوا جبکہ وہاں سے گرفتار ہونیوالے ایم کیو ایم کے بعض کارکنوں نے پولیس تفتیش کے دوران بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ سے اپنے روابط کا اعتراف کیا اور بتایا کہ انہیں تربیت کیلئے بھارت بھجوایا جاتا رہا ہے جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کیلئے انہیں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ فنڈنگ بھی ہوتی رہی ہے۔
بلاشبہ ہر سیاسی جماعت کو آئین اور قانون کے تحت اس امر کا حق حاصل ہے کہ اگر وہ سمجھے کہ اسے سیاسی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اسکے کارکنوں اور پارٹی عہدیداروں کیخلاف کسی قسم کا امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے تو وہ یہ معاملہ متعلقہ منتخب فورموں کے ساتھ ساتھ متعلقہ عدالتوں میں بھی اٹھا سکتی ہے۔ ماضی میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب حکومت وقت کی جانب سے اسکے سیاسی مخالفین کو مختلف مقدمات میں ملوث کرکے حراست میں لیا گیا تو مجاز فورموں پر انکے آواز اٹھانے سے انہیں ریلیف حاصل ہوا‘ مخالفین کو انتقامی سیاسی کارروائی کا نشانہ بنانے کی زیادہ تر مثالیں جرنیلی آمریتوں کے ساتھ منسلک ہیں جبکہ ان آمریتوں کے دوران سیاسی مخالفین کو دبانے کیلئے اپنے پروردہ پریشر گروپ بھی تشکیل دیئے جاتے رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں ایم کیو ایم کی تشکیل بھی اسی تناظر میں ہوئی تھی جو پہلے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک پریشر گروپ کے طور پر ابھر کر سامنے آئی اور جب اسکے بلدیاتی‘ صوبائی اور قومی سطح کی سیاست میں بھی اثرات مرتب ہونے لگے تو اسے سیاست کے قومی دھارے میں لانے کیلئے مہاجر کے بجائے متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے روشناس کرانے کی مثبت سوچ پیدا ہوئی اور قومی قیادتوں کی جانب سے بھی اس پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا گیا مگر بدقسمتی سے عملی طور پر اس پارٹی کی قیادت کے ذہن میں مہاجرت کی سوچ راسخ ہی رہی اور مہاجروں کے حقوق کے نام پر ہی اب تک متحدہ کی سیاست چل رہی ہے۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا اپنا کردار سب سے زیادہ متنازعہ رہا ہے جو گزشتہ 22 سال سے ازخود ترک وطن کرکے برطانیہ میں مقیم ہیں اور برطانیہ کی شہریت بھی حاصل کر چکے ہیں جبکہ انکی پارٹی گزشتہ کم و بیش 15 سال سے براہ راست یا بالواسطہ قومی اور صوبائی اقتدار کا حصہ بنی رہی اور سندھ کے بلدیاتی اداروں میں بھی اس کا مؤثر عمل دخل رہا ہے۔ اسکے باوجود مہاجر کے نام پر سیاست کرتے ہوئے انکی محرومیوں کا رونا رونا سوائے اپنے مفاد کی سیاست کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ اسکے باوصف بالخصوص کراچی میں بھتہ خوری‘ لینڈ گریبنگ‘ ٹارگٹ کلنگ اور دوسرے سٹریٹ کرائمز کا جو کلچر پروان چڑھا ہے اس سے ایم کیو ایم خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔
اگر اب کراچی میں امن کی بحالی اور اسکے شہریوں کو عروس البلاد والا کلچر واپس لوٹانے کیلئے وفاقی حکومت کی نگرانی میں رینجرز اور پولیس کا ٹارگٹڈ اپریشن جاری ہے جس میں جرائم کی سرکوبی کی بلاامتیاز کارروائی ہو رہی ہے تو متحدہ کو امن کی بحالی اور قومی سلامتی کے تقاضے کے تحت اس اپریشن کا ساتھ دینا چاہیے اور اپریشن کے دوران متحدہ کے جن کارکنوں کے جرائم میں ملوث ہونے کے شواہد اور ثبوت ملے ہیں‘ متحدہ کو خود ہی انہیں اپنی پارٹی کی صفوں سے نکال دینا چاہیے مگر بدقسمتی سے متحدہ کی قیادت بھارت کی سرپرستی میں دہشت گردی اور جرائم کی دیگر وارداتوں میں ملوث ان جرائم پیشہ عناصر کے دفاع میں کھل کر سامنے آگئی ہے اور ملک کی سلامتی کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر قیام پاکستان کے مقاصد اور بانیانِ پاکستان کے حوالے سے متنازعہ بیانات دینے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا جبکہ الزام تراشی کے اس کلچر میں فوجی قیادتوں کو بھی رگیدا جارہا ہے اس لئے اب اسکی عرصہ دراز کی حکومتی اتحادی پیپلزپارٹی بھی اس سے فاصلہ پیدا کرنے پر مجبور ہو گئی ہے اور گزشتہ روز اسی تناظر میں سندھ اسمبلی میں حکمران پیپلزپارٹی کی جانب سے ایک قرارداد منظور کرائی گئی ہے جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ الطاف حسین کو ملک واپس لا کر انہیں ملک دشمنی پر قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں خود سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے الطاف حسین سے ہونیوالے اپنے ٹیلی فونک رابطے کی بنیاد پر انکی حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا اور کہا کہ الطاف حسین میں حب الوطنی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے اور وہ قومی اداروں‘ آئین اور افواج پاکستان کا احترام کرتے ہیں مگر اسی روز متحدہ کی جانب سے بھارت سمیت 55 ممالک کے سفارت خانوں اور اقوام متحدہ‘ یورپی یونین اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو مراسلہ بھجوا دیا گیا جس میں پاکستان سکیورٹی فورسز کیخلاف ان ممالک اور اداروں سے امداد طلب کی گئی۔ اس تناظر میں تو متحدہ کی سیاست کے حوالے سے کسی مثبت تبدیلی کا کوئی عندیہ نہیں مل رہا اور اگر بالخصوص پاکستان کے ازلی مکار دشمن بھارت کی سرپرستی میں ہی وہ اپنا کاروبار سیاست چلائے رکھنا چاہتی ہے تو ملک دشمنی پر مبنی اس سیاست پر آئینی اور قانونی قدغنیں بھی لگ سکتی ہیں اور ایسی سیاست کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔ بہتر تو یہی ہے کہ متحدہ کی رابطہ کمیٹی ملکی اور قومی سلامتی کے تقاضوں کے تحت اپنی سیاسی سوچ تبدیل کرے اور اپنے قائد الطاف حسین سے گلوخلاصی کراکے اپنی نئی قیادت منتخب کرلے تاکہ قومی سیاست میں متحدہ کا مثبت کردار برقرار رہ سکے۔ اگر الطاف حسین متحدہ کو اپنے سیاسی ایجنڈا کے مطابق ہی چلانا چاہتے ہیں تو پھر آئین اور قانون کے تحت ملک میں اس سیاست کی کوئی گنجائش نہیں نکل پائے گی۔ متحدہ کو اس سیاست کے منفی نتائج بھگتنے کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن