یہ کہاں کا انصاف ہے!

غربت افلاس پیاس انصاف اور پانی کے ماروں کو "صبح نو" مبارک ہو۔ مبارک صد سلامت کہ معاملہ یک طرفہ نہیں رہا بلکہ گیارہ چھ میں نمٹ گیا۔ اکیسویں ترمیم پر تحفظات رکھنے والے والے نادان بھی عمران خان کی طرح قانونی جنگ ہار گئے اب سب کے سب اسی پرانی تنخواہ پر کام کریں گے۔ عدلیہ نے ایک تاریخی فیصلہ دے کر ملک کو ایک بار پھر اندھے کنوئیں سے نکال لیا۔ یہ ملک بھی کیا ملک ہے ہمیشہ اندھے کنوئیں میں پڑا رہتا ہے اور اسے اس تاریکی اور اتھاہ گہرائی سے نکالنے کےلئے کبھی کسی فوجی جرنیل کی بیساکھی اور کبھی کسی اعلیٰ جج کے کندھے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس بار پھر ایک صاحب عدل کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ اس نے ایک سنگین بحران میں لت پت ملک کو اندھیرے سے نکال کر دن کی روشنی میں لا کھڑا کیا ہے۔
اس تاریخی فتح پر مسلم لیگ کے شادیانے تو سمجھ میں آتے ہیں کہ ہر سال دو سال بعد کوئی نہ کوئی ایسا عدالتی فیصلہ آ ہی جاتا ہے جو ان کےلئے خوشیوں کے اسباب پیدا کر دیتا ہے لیکن آمریتوں میں برہنہ پشتوں پر کوڑوں کے نشان چھپوانے والے اور سینوں پر گولیوں کے زخم سجانے والے اور صبح شام جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والے بھی خوشی سے پاگل ہو رہے ہیں دھمالیں ڈال رہے ہیں اور اس فیصلے پر بغلیں بجا رہے ہیں تو یقیناً اس میں کوئی رمز کوئی راز تو ہو گا جو وکلا تحریک کے ہیرو علی احمد کرد اور ان جیسے نادانوں کی عقل میں نہیں آ رہا۔ فیصلے کی شب ایک ٹاک شو میں وہ بہت جھنجھلائے ہوئے تھے اور جذبات سے مغلوب ہو کر انہوں نے اس دن کو عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دے دیا۔ وہ کہنے لگے یہ فیصلہ مبنی بر انصاف نہیں اور اگر ملک میں انصاف دینے کی روش اختیار نہ کی گئی تو معاشرہ جلد اندھیروں میں ڈوب جائیگا۔ نہ جانے بلوچستان کا یہ "باغی" وکیل اور اس جیسے دیگر انصاف کی بالادستی کے درد میں مبتلا وکلا حضرات قانون اور انصاف کی باتیں کس منہ سے کرتے ہیں۔ علی احمد کرد اور ان جیسے عظیم تر باغیوں نے اگر کل عصر حاضر کے جسٹس منیر چوہدری افتخار کو کندھوں پر بٹھا کر لوگوں کی آنکھوں کا تارا بنا کر عوام کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکی ہوتی تو آج وہ اکیسویں ترمیم کے خلاف عدلیہ کے اکثریتی فیصلے کو نا انصافی کی بد ترین مثال قرار نہ دے رہے ہوتے۔میں پاکستان کے ہر ادارے کا دل سے احترام کرتا ہوں میں عدلیہ کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔ معاشروں کو ڈھب میں رکھنے کےلئے عدلیہ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے جس مملکت اور معاشرے میں انصاف نہ ہو وہاں ظلم کا راج ہوتا ہے۔ ہماری عدلیہ بھی محب وطن عدلیہ ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک میں اس دن انصاف کہاں تھا جب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو زیارت کی آرام گاہ میں موت کی میٹھی لوریاں سنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا؟ اس دن انصاف کہاں تھا کہ جب ملک کا پہلا منتخب وزیراعظم لیاقت علی خان16اکتوبر 1951ءکو راولپنڈی کی ایک جلسہ گاہ میں سر عام گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اور اس دن انصاف کہاں پڑا سو رہا تھا کہ جب گورنر جنرل غلام محمد نے 1953میں ناظم الدین کابینہ کو چلتا کیا اور 24 اکتوبر 1954ءکو پوری اسمبلی تحلیل کرکے جمہوریہ پاکستان کواقوام عالم میں تماشا بنا دیا۔ صدر مملکت اسکندر مرزا نے 7اکتوبر1958 ء کوجمہوریت پر شب خون مار کر ملک میں پہلی بار آمریت کی رونمائی کرائی تو نہ جانے اس گھڑی انصاف کہاں غائب تھا۔ پتہ نہیں اس دن انصاف کہاں پڑا سڑ رہا تھا کہ جب 4 اپریل 1979ءکو 1973ءکے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو تارا مسیح نے پلک جھپکتے ہی تختہ دار پہ موت کی نیند س±لا دیا۔ نہ جانے اس دن انصاف کو کیا موت پڑ گئی کہ جب 27دسمبر2007ءکو عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو بھی وہیں اسی راولپنڈی کے میدان میں گولیوں سے بھون ڈالا گیا ¾جہاں لیاقت علی خان تہہ تیغ کر دئیے گئے تھے۔
قائد اعظم محمد علی جناح سے لے کر بی بی کی شہادت تک یہ سارے دن سیاہ دن تھے۔ ملک کے دامن پر کتنے سیاہ دھبے ہیں ¾ ان کا شمار ممکن ہی نہیں لیکن پاکستان کے کچے گھروندوں میں رہنے والے کروڑوں مقہور اور مجبور انسانوں کے لئے زندگی کا ہر روز سیاہ دن ہوتا ہے۔ ایک وقت کی روٹی کے لئے وہ ہر روزانسانیت کی منڈی میں نیلام ہوتے ہیں۔ وہ روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں۔ ان کے ہر دن کا آغاز نا امیدی سے ہوتا ہے اورخوفناک مایوسی پر ختم ہوتا ہے۔ جن کے نام پر ملک بنا تھا وہ آج بھی سانسیں ادھار لے کر زندہ ہیں۔زلزلہ ہو آندھی ہو طوفان ہو یا بارش یا سیلاب غریبوں کی زندگی میں عذاب بن کر آتے ہیںاور سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں لیکن ان طوفانوں میں بھی حکمرانوں اور بالادست طبقوں کی تجوریاں مال وزر سے لبا لب رہتی ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟کیا کبھی ان مظلوموں کے بارے میں کسی پارلیمان کسی عدلیہ کسی حکومت یا کسی حکمراں نے کچھ سوچا ہے ۔ ملک میں آئین سب سے مقدم ہے کہ پارلیمان یہ بحث بہت ہو چکی ملکی زندگی کے اڑسٹھ سال اس بحث کی نذر ہو گئے ۔خدارا !اب سب مل کر کوئی ایسا فیصلہ دیجئے جو ایک پلک جھپک میں اس ملک کے کروڑوں غریبوں کی زندگیوں میں ذرا سی خوشیاں بھر دے اور داتا سرکار شاہ لطیف خواجہ فرید خوشحال خان خٹک اور گل خان نصیر کی دھرتی کے یہ بیٹے پھر سے جی اٹھیں۔۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...