شاذیہ سعید
shazi1730@hotmail.com
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں پر اگر ہمیں کوئی بھی ذہنی طور پر پریشان شخص مل جائے یا اگر کوئی شخص کسی ماہر نفسیات کے پاس محض اس غرض سے جا رہا ہو کہ اسکی پریشانی ختم ہو جائے تو ہم اسے فوری طور پر ”پاگل“ کا خطاب دے دہتے ہیں۔ ذہنی پریشانیوں کا اگر بر وقت علاج نہ کروایا جائے تو یہ بڑھ کر ہمیں پاگل ضرور بنا سکتی ہیں اسی لئے یہ سوچ کر کہ ” لوگ کیا کہیں گے“؟ ہمیں ماہر نفسیات سے مشورہ کرنے سے خود کو روکنا نہیں چاہےے۔ذہنی بیماریاں اور ان کی علامات کیا ہیں اور ان کا تدارک کیسے ممکن ہے اس حوالے سے شیخ زید ہسپتال کی کنسلٹنٹ کلینکل سائیکولوجسٹ صباءشبیر شیخ سے تفصیلی ملاقات کا احوال نذر قارئین ہے۔
صبا نے بتایا کہ نفسیاتی مسائل دو طرح کے ہوتے ہیں ایک انسٹرا منٹل (Instrumental)اور دوسرے بلاسٹک Blastic))۔انسٹرامنٹل مسائل کا تعلق قدرتی آفات سے ہے جبکہ بلاسٹک کا تعلق روزمرہ زندگی میں بیتنے والے واقعات سے ہوتا ہے۔جونہی کوئی بھی نفسیاتی عارضہ شروع ہوتا ہے تو بھوک یا تو لگتی ہی نہیں یا پھر سوچ و فکر میں ایسے پریشان ہوتے ہیں کہ خوراک کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے، کھانے میں لذت نہیں رہتی۔نفسیاتی امراض کی علامات میں نیند بہت متاثر ہوتی ہے۔ بعض مریضوں کو نیند آتی ہی نہیں یا پریشان کن خیالات کی وجہ سے بہت دیر سے آتی ہے۔ رات کو بار بار آنکھ کھل جاتی ہے۔ معمول سے بہت پہلے آنکھ کھل جاتی ہے اور بے چینی کی کیفیت ہوتی ہے۔اگرچہ تھکن اور کمزوری مختلف جسمانی بیماریوں کی علامت ہے مگر ذہنی مریض بغیر کسی وجہ کے اپنے آپ کو بہت کمزور محسوس کرتے ہیں اور جلدی تھک جاتے ہیں۔ جسمانی کمزوری کے علاوہ جنسی کمزوری بھی محسوس کرتے ہیں۔مریض اپنے حلیے اور لباس کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ چہرے پر اداسی، پریشانی، اضطراب یا وحشت ٹپکتی ہے۔اکثر نفسیاتی بیماریاں مریض کی گفتگو سے ہی پہچان لی جاتی ہیں۔ کچھ خاموش ہو جاتے ہیں، جواب نہیں دیتے اور بہت سے لوگ مختصر جواب دیتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جن کی گفتگو بے ربط ہوتی ہے۔ کچھ بیماریوں میں مریض مسلسل بولنا شروع ہو جاتے ہیں۔گیس کی بیماری، بدہضمی، ڈکاریں، قبض، السر کی شکایت، سانس کی تکلیف، سر کا درد، کمر اور جوڑوں کا درد، یہ سب بھی نفسیاتی اور دماغی بیماریوں کی علامات ہو سکتی ہیں۔چند ذہنی بیماریوں میں مریض کے کانوں میں ملاجلا شور اور آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ جب مرض بڑھتا ہے تو باقاعدہ مردوں اور عورتوں کے بولنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو ان سے باتیں کرتی ہیں، انہیں حکم دیتی ہیں اور ڈراتی ہیں۔ آوازیں تو سنائی دیتی ہیں مگر بات کرنے والے لوگ نظر نہیں آتے۔ بعض اوقات مریض ان کی باتوں کا جواب بھی دیتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ خودکلامی کر ر ہا ہے۔ کبھی مریض ان سے لطف اٹھاتا ہے اور ہنستا ہے۔ جب یہ آوازیں ڈراتی ہیں اور دھمکیاں دیتی ہیں تو مریض خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ان علامات کو معمولی جان کر نظر انداز نہیں کرنا چاہےے بلکہ فوری طور پر کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کرنا چاہےے۔ ان حالات میں فیملی کی سپورٹ بہت ضروری ہوتی ہے کیونکہ ہ چند ابتدائی علاما ت بعد میں کسے بڑے حادثے یا بیماری کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ اگر ہم علاج کی بات کریں تو ایسے مریض جو کسی بلاسٹ کی وجہ سے خوفزدہ ، یاا نہوں نے کوئی حادثہ ہوتے ہوئے دیکھ لیا ہو تو وہ بہت زیادہ خاموش ہوجاتے ہیں ان میں سوشل فوبیا پیدا ہو جاتا ہے جسکی وجہ سے وہ لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیتے ہیں ہر کسی سے کتراتے ہیں۔ ایسے مریضوں کا بہترین علاج بات چیت ہوتی ہیں۔ بات چیت کر کے ہم ان کا خوف دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ سے اس جگہ پر جانا شروع کریں جہاں ان کے ساتھ حادثہ ہوا تھا۔آج کل بچوں میں جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تو ایسے واقعات کے بعد بچوں کو کس طرح کی مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے اندر پہلے جیسی خود اعتمادی پیدا کر سکیں؟ اس حوالے سے صبا نے بتایا کہ بچوں میں زیادتی کے واقعات جنسی ہی نہیںبلکہ نفسیاتی اور جذباتی بھی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بچے کی عملی زندگی بہت متاثر ہوتی ہے۔ کسی بھی قسم کی زیادتی کا شکار بچے کھانا نہیں کھاتے ۔،ڈر جاتے ہیں،بات بے بات غصہ کرتے ہیں یا پھر خاموش ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ کو کسی بھی بچے میں ایسی علامات نظر آئیں تو فوری طور پر کسی بھی ماہر نفسیات سے مشورہ کریں۔ایک چیز جو بچوں میں بہت زیادہ دیکھنے میں آتی ہے وہ ہے احساس کمتری جسکی وجہ والدین خود ہوتے ہیں۔ جیسے کہ والدین کسی بھی بات کو لیکر کر بچے کو ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں، مارنا پیٹنا حتیٰ کہ انہیں دھتکارنا اور سزا کے طور پر بچوں کو باتھ روم یا سٹور میں بند کر دینا ایسے میں بچوں میں ڈر اور خوف کے ساتھ ساتھ احساس کمتری بھی پیدا ہو جاتا ہے جو آگے جا کر بڑے مسائل کا باعث بنتی ہیں۔ ایسے میں ہم والدین کو یہی مشورہ دیتے ہی کو بچوں کو مارا پیٹا نہ جائے بلکہ پیار سے سمجھایا جائے۔ والدین بچوں کے لئے بہترین رہنما ثابت ہو سکتے ہیں اگر وہ ان سے بات چیت کریں اور زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزاریں۔ صبا کا کہنا ہے کہ17،18سال کی عمر میں شخصیت بن جاتی ہے۔کوئی بھی شخص خود ابنارمل نہیں بنتا بلکہ تجربات اسے ابنارمل بنا دیتے ہیں۔ اگر ہم خوشگوار تجربات کا سامنا کریں گے تو ہماری سوچ مثبت ہوگی وگرنہ منفی سوچ ہی اجاگر ہو گی۔ ہمارے معاشرے میں ایگویا انّا بہت حاوی ہے ۔صبا کا کہنا ہے کہ انّا کا استعمال بیو قوف لوگ کرتے ہیں۔یہ وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جن میں اعتماد کی کمی ہو یا جو لوگ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ دوسروں کو دیکھ کر اپنے خیالات نہیں بدلنے چاہےے۔جو کام بھی ہم کرتے ہیں ہمیں یقین ہونا چاہےے کہ غلط نہیں اگر مثبت سوچ کے ساتھ زندگی گزاریں گے تو آسانیاں پیدا ہوگی ۔