قصور: بچوں پر جنسی تشدد‘ انتظامیہ کی معاملہ دبانے کی کوشش

گنڈا سنگھ والا (اشرف جاوید/ نیشن رپورٹ) قصور کے دیہات میں 284 بچوں کو جنسی ہراساں کئے جانے کے حوالے سے سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد اہل علاقہ میں شدید اشتعال پھیل گیا اور وہ احتجاج کیلئے باہر نکل آئے تاہم مقامی انتظامیہ ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر اس معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مبینہ طور پر 20 سے 25 افراد کے گروپ نے گذشتہ برس کے دوران جنسی ہراساں کئے جانے کے معاملے میں بچوں کی 400 کے قریب نازیبا ویڈیوز بھی بنا لی تھیں۔ لاہور سے 60 کلومیٹر دور گائوں حسین خانوالہ میں سکول جانیوالی لڑکیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ یہ گینگ بچوں کے گھر والوں کو بلیک میل کر کے بھتہ بھی وصول کرتا رہا۔ ڈی پی او رائے بابر سعید نے ’’دی نیشن‘‘ کو بتایا کہ متاثرین کی شکایات پر ہم نے اب تک 6 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ 5 جسمانی ریمانڈ پر ہیں اور ایک نے قبل از گرفتاری ضمانت کرا رکھی ہے۔ پولیس نے ثبوت کیلئے ویڈیوز ضبط کر لی ہیں۔ انہوں نے کہا میں نہیں جانتا کہ ویڈیوز کس مقصد کیلئے بنائی گئی اور انکا ایجنڈا کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مقامی ایم پی اے کے دبائو پر پولیس نے 50 لاکھ روپے لیکر اس کیس کے مرکزی مشتبہ شخص کو رہا کر دیا ہے اور مقامی سیاستدان متاثرہ افراد پر کیسز واپس لینے کا دبائو بھی ڈال رہے ہیں۔ ایف آئی اے نے اس واقعہ کو شرمناک قرار دیا ہے۔ متاثرین کی شکایت کے مطابق ان سے گن پوائنٹ پر ویڈیو بنوائی گئی تاہم ایسا لگتا ہے کہ بچوں کو پیسوں کا لالچ دیکر اس کام میں ملوث کیا گیا۔ 35 سالہ ثریا بی بی نے اپنے 14 سالہ بیٹے کی ویڈیو کو ختم کرانے کیلئے اپنا زیور بیچ کر بلیک میلرز کو 60 ہزار روپے ادا کئے۔ ثریا بی بی نے بتایا انہوں نے 2011ء میں میرے بیٹے کی ویڈیو بنائی اور ہم چار سال سے انہیں رقم ادا کر رہے ہیں۔ ہمارا دل کرتا ہے کہ ہم اپنے کو آگ لگا دیں۔ درجنوں دیہاتیوں نے قصور پریس کلب کے سامنے جمعہ کے روز احتجاج کا پروگرام بنایا مگر کوئی کوریج کیلئے نہیں آیا۔ ایک مقامی رپورٹر نے بتایا کہ پولیس نے درخواست کی تھی کہ قومی مفاد میں اس شرمناک واقعے کی کوریج نہ کی جائے۔ ایک اور متاثرہ بچے کے مطابق اس کی ماں نے ایک سال قبل گنڈا سنگھ والا پولیس سے رابطہ کیا مگر اسے خاموش کرا دیا گیا۔ گنڈا سنگھ پولیس نے یکم جولائی کو 3 ایف آئی آرز اور 6 جولائی کو ایک ایف آئی آر درج کی جو 15 افراد کیخلاف تھیں۔ 5 مشتبہ ملزم سرکاری ملازم ہیں جنہوں نے ضمانت کرا لی ہے۔ کچھ روز قبل مرکزی ملزم کی رہائی کے بعد سینکڑوں دیہاتیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ ایک اور دیہاتی نے الزام لگایا کہ اس گھنائونے عمل کے ملزم یہ ویڈیو بنا کر برطانیہ، امریکہ اور یورپ میں فروخت کرتے ہیں۔ ایک متاثرہ بچے کے مطابق اس شرمناک سکینڈل میں تنزیل الرحمن، عتیق الرحمن، محمد یحییٰ، نسیم شیرازی شامل تھے اور اس نے شیرازی کو سکائپ پر کسی سے بچوں کی ویڈیوز اور اس کے بدلے رقوم کی بات کرتے ہوئے سنا تھا۔ یہ لوگ بیرون ملک سے ڈالرز کما رہے تھے۔

ای پیپر دی نیشن