سندھ کے وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ’’کالا باغ ڈیم کے بارے میں میرا وہی مؤقف ہے جو سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کا تھا اور میری پارٹی کا ہے۔ کالا باغ ڈیم ایک مُردہ گھوڑا ہے اور چابک مارنے سے مُردہ گھوڑا زندہ نہیں ہو گا‘‘۔ اُدھر وفاقی وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے ارکان قومی اسمبلی کو بتایا کہ ’’کالا باغ ڈیم پر وفاقی حکومت کے صوبوں سے مذاکرات نہیں ہو رہے‘‘۔ یہ مذاکرات کب ہونگے؟ یا کبھی نہیں ہونگے؟ عابد صاحب نے نہیں بتایا، شاید یہ بتانا اُن کے اختیار میں ہی نہیں۔
ایک دور میں وزیراعظم نواز شریف اور اُن کی مسلم لیگ ن کالا باغ ڈیم کے علمبردار تھے۔ اِس سے قبل صدر جنرل ضیاء اُلحق سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ کالا باغ ڈیم بنا کر ’’ثوابِ دارین‘‘ حاصل کر لیں گے۔ جنرل صاحب جالندھر کے مہاجر تھے لیکن اُن کا Domicile پشاور کا تھا۔ انہوں نے شاید خان عبدالولی خان کو خوش کرنے یا اُن سے خوفزدہ ہو کر کالا باغ ڈیم نہیں بنایا۔ کیونکہ خان صاحب دھمکی دِیا کرتے تھے کہ ’’ اگر کالا باغ ڈیم بنایا گیا تو ہم اُسے بم مار کر اُڑا دیں گے‘‘۔ اِس پر مَیں نے لِکھا تھا کہ خان عبدالولی خان کے والد خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان تو عدم تشدّد کے علمبردار تھے پھر ہماری کسی خفیہ ایجنسی نے یہ کیوں نہیں پوچھا ’’خان صاحب! آپ کے پاس جو ایٹم بم ہے وہ امپورٹڈ ہے یا سمگل شدہ‘‘؟
میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دَور میں جب مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی میں گاڑھی/ پتلی چھنتی تھی تو، مَیں نے ستمبر 1992ء میں اپنے ایک کالم میں مشورہ دِیا تھا ’’وزیراعظم نواز شریف صوبہ سرحد کا نام پختونستان اور کالا باغ ڈیم کا نام ’’ولی باغ ڈیم‘‘ رکھ کر خان صاحب کو راضی کر لیں!‘‘ اُس کے بعد مَیں نے وزیراعظم صاحب کے ساتھ داکار (سینی گال) جاتے ہُوئے طیارے میں بھی بات کی تھی۔ شاید میری بات طیارے کی گونج میں دب گئی۔ صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھنے کا اعزاز تو صدر آصف زرداری کو مِلنا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین حلالہ وزیراعظم تھے اور چودھری پرویز الٰہی ’’پڑھا لِکھا پنجاب‘‘ کے وزیر اعلیٰ اور وہ صدر جنرل پرویز مشرف کو 10 بار وردی میں صدر منتخب کرانے پر تُلے ہُوئے بھی تھے۔ اُنہی دِنوں مَیں نے اپنے تین چار کالموں میں چودھری صاحبان سے درخواست کی۔ ’’آپ جنرل صاحب کا ’’مِنّت ترلا‘‘ کر کے کالا باغ ڈیم بنوا دیں!‘‘ یہ میری غلطی تھی کہ مَیں نے اپنے کالم میں ’’مِنت تَرلا‘‘ کی ترکیب لِکھ دی تھی۔ اِس کے باوجود جب کبھی چودھری صاحبان کالا باغ کا ’’راگ‘‘ چھیڑتے ہیں تو مَیں اُسی دھن میں کالا باغ ڈیم کے حق میں کالم لِکھ دیتا ہُوں۔ ایک بار چودھری پرویز الٰہی نے کالا باغ ڈیم کے مخالفین سے کہا تھا ’’اگر آپ لوگوںکو ’’کالا باغ ڈیم‘‘ کا نام پسند نہیں تو اُس کا نام ’’پاکستان ڈیم‘‘ رکھ دیں!‘‘ میاں نواز شریف کیلئے نادر موقع تھا لیکن وہ چودھری صاحبان کی ہاں میں ہاں کیوں ملاتے؟
نومبر 2012ء کے اواخر میں نوائے وقت کے ادارتی صفحات پر جناب سلیمان خان کا ایک مضمون تین قِسطوں میں شائع ہُوا تھا۔ جِس میں خان صاحب نے لِکھا تھا کہ ’’فروری 1948ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کالا باغ (میانوالی) ہائیڈرو پراجیکٹ اور مشرقی پاکستان میں کرنا فلی ہائیڈرو پراجیکٹ پر بہت جلد کام کرنے کا حکم دِیا تھا‘‘ سلیمان خان صاحب نے یہ بھی لِکھا تھا کہ ’’لاہور ہائی کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 154 کے تحت مشترکہ مفادات کی کونسل کی 1991ء اور 1998ء کی سفارشات کی روشنی میں نومبر 2012ء کے اواخر میں حکم دِیا تھا کہ ’’کالا باغ ڈیم کی تعمیر پاکستان کے مفاد میں ہے کیونکہ توانائی کا بحران شِدّت اختیار کر چکا ہے‘‘۔ اِن دنوں بھی میاں نواز شریف وزیراعظم تھے اور توانائی کا بحران بھی بہت زیادہ تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار میں وزیراعظم ہائوس میں جناب آصف زرداری کا گھوڑوں کا اصطبل بہت مشہور تھا۔ شاید اُنہوں نے اپنے دُبئی کے محل میں بھی گھوڑے پال رکھے ہُوں یا اُونٹ؟ عین ممکن ہے کہ مُراد علی شاہ صاحب نے صِرف زرداری صاحب کے گھوڑے ہی دیکھے ہوں۔ پِیر پگاڑا دوم سیّد علی مردان شاہ (مرحوم) کو بھی گھوڑوں کا شوق تھا۔ اُن کے کئی سیاسی گھوڑے اقتدار تک پہنچ گئے تھے۔ فارسی کے نامور شاعر شیخ سعدیؒ نے لِکھا تھا…؎
اسپ تازی، اگر ضعِیف بوَد
ہمچُناں از، طویلۂ خربہ!
یعنی ’’عربی گھوڑا اگرچہ کمزور ہے، پھر بھی وہ گدھوں کے طویلے سے بہتر ہے‘‘۔ عام طور پر گھوڑے کو گدھے سے برتر سمجھا جاتا ہے لیکن فارسی کے ایک دوسرے شاعر حافظ شیرازیؒ نے اپنے دور کے شاہی دربار کا نقشہ کھینچتے ہُوئے کہا تھا…؎
’’اسپ تازی شُدہ مجرُوح، بزیر پالاں
طوقِ زرّیِں، ہمہ دَر گردنِ خَر می بِینم‘‘
یعنی عربی گھوڑا، پالان کے نیچے زخمی ہو گیا ہے اور مَیں گدھے کی گردن میں سونے کا طوق دیکھ رہا ہوں۔ بادشاہوں کی طرح فوجی آمروں اور با اختیار صدور اور وزرائے اعظم کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ’’کِس عربی اُلنسل گھوڑے کو پالان کے نیچے رکھ کر زخمی کر دِیا جائے اور کِس گدھے کی گردن میں سونے کا طوق ڈال کر تاریخ میں اُس کا نام روشن کردِیا جائے۔
مَیں مُراد علی شاہ صاحب سے اختلاف کرتا ہُوں۔ میری رائے میں ’’کالا باغ ڈیم مردہ گھوڑا نہیں بلکہ زندہ اونٹ ہے‘‘۔ عربی میں اونٹ کو ’’سار‘‘ اور اونٹنی کو ’’ناقہ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ مجھے ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ کی کہانی پڑھ کر پتہ چلا۔ ہمارے شاعروں نے ’’ناقۂ لیلیٰ‘‘ (لیلیٰ کی اونٹنی) کا بہت ذکر کِیا ہے۔ یوں تو اونٹ پاک و ہند کے کئی علاقوں میں ہوتے ہیں لیکن عربی اونٹ کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ مشہور ادیب ابنِ انشاء نے لِکھا تھا۔ ’’اُونٹ ایک اسلامی جانور ہے‘‘۔ پنجاب کی ایک لوک کہانی ’’سہتی مُراد‘‘ کا ہیرو مُراد۔ جناب آصف زرداری کی طرح بلوچ تھا اور سہتی نے اُس کے فراق میں گِیت گایا…؎
’’کیوں نئیں لَیندا، ساڈیاں سارا
ڈھول بلوچا، موڑ مُہاراں‘‘
یعنی اے اونٹنی سوار میرے ڈھول (محبوب) بلوچ! تم میری خبر کیوں نہیں لیتے۔ تم (فوراً) اپنی اونٹنی (پنجابی میں ڈاچی) کی مُہاریں موڑو اور میرے پاس چلے آئو!‘‘ پھر کہا…؎
’’ڈاچی والیا موڑ مُہار وے!‘‘
مَیں حیران ہُوں کہ سابق صدر آصف زرداری نے ایک سال اور دو ماہ سے اپنے چاہنے والوں کو فراق کے دُکھ میں مُبتلا کررکھا ہے۔ دُبئی میں اعلیٰ نسل کے اُونٹ اور اُونٹنیاں ہیں۔ وہ اگر مُہاراں موڑ دیں اور کالا باغ ڈیم پر مُک مکا کرلیں تو یہ زندہ اُونٹ کسی نہ کسی کروٹ تو بیٹھ جائے۔ کیونکہ یہ مسئلہ مُراد علی شاہ اور عابد شیر علی کے "Level" کا نہیں۔ جناب فرحت اللہ خان بابر فارسی جانتے ہیں، زرداری صاحب اُن سے پوچھ لیں کہ’’شُتر کِینہ‘‘ کا اُردو/ پنجابی میں کیا مطلب ہے؟ وزیراعظم نواز شریف تو بھگت کبِیر کی طرح ’’نہ کاہو سے دوستی، نہ کاہو سے بَیر‘‘ کے قائل ہیں۔
’’کالا باغ ڈیم۔ مُردہ گھوڑا/ زندہ اُونٹ؟‘‘
Aug 08, 2016