سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ پاکستانیوں کی جنگ تھی؟ یقینا یہ جنگ پاکستانیوں کی نہیں تھی لیکن حالات نے یہ جنگ پاکستان اور پاکستانیوں کے سر تھوپ دی ، جس کے بعد کئی برسوں سے پاکستان اب اس جنگ کو اپنی ذاتی جنگ سے بھی بڑھ کر اپنی جنگ سمجھ کر لڑنے پر مجبور چلا آرہا ہے۔ اس جنگ کے دوران ساٹھ ہزار پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے، جن میں 6 ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ پاکستان کو معاشی طور پر 80 ارب ڈالر کا نقصان الگ سے پہنچا، بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کا سیاسی و سماجی ڈھانچہ بھی برباد ہوکر رہ گیا۔ پاکستان نے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنی قربانیاں بھی دی ہیں، اس کے بعد کسی کو شبہہ بھی نہیں ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان امن کیلئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کبھی کوئی تساہل برتے گا،لیکن یہ امریکہ بہادر ہے جو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے اُلٹی گنگا بہانے کا عادی ہے۔ پاکستان کاعزم تو یہ ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف نا صرف کارروائیاں کر رہا ہے بلکہ وہ شدت پسندی کے خلاف لڑائی میں دنیا کی ہر ممکن مدد بھی کر رہا ہے۔ دنیا بالخصوص امریکہ اگر اس سلسلے میں کوئی لچک دکھائے تو بھی پاکستان اپنی عالمی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کیلئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا ۔ پاکستان کئی مرتبہ اپنے اس عزم کا اظہار بھی کرچکا ہے کہ دہشت گردوں کے اچھا یا برے ہونے کی تمیز کیے بغیر اُن کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی اور یہ کہ پاکستان اپنی سر زمین کو کسی صورت دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دےگا۔پاکستان کی جانب سے خطے اور دنیا کو پرامن اور محفوظ بنانے کیلئے کی جانیوالی اِن تمام کوششوں کے بدلے میں دنیا بالخصوص امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی اختیار کیا جارہا ہے، وہ انتہائی شرمناک ہے۔ مثال کے طور پر ابھی حال ہی میں امریکی محکمہ دفاع نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس کارروائی نہ کرنے کے الزام میں پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد کے 30 کروڑ ڈالر روک لیے۔ پینٹاگون کے ترجمان کے مطابق سیکرٹری دفاع ایش کارٹر نے وہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا جس سے یہ رقم پاکستان کو مل سکتی تھی۔کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت سال 2002ءسے ہی امریکہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں پاکستان فوجی مدد کرتا رہا ہے اور یہ وہ رقم ہوتی ہے جو پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں خرچ کی جاچکی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے امریکہ پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی سے بھی انکار کرچکا ہے۔ عالمی امن کیلئے پاکستان کے اس عزم کے باوجود بہت سے سوالات حل طلب ہیں۔ انہی سوالات میں سے ایک سوال تو یہ بھی ہے کہ اس جنگ میں قربانیوں کی عظیم تاریخ رقم کرنے کے باوجود بدلے میں پاکستان کو کیا ملا؟ تو جواب بھی بڑا آسان ہے کہ ان تمام قربانیوں کے صلے میں پاکستان کو ایک تمغہ ملا جسے سینے پر سجائے یہ ملک ہر روز ایک نیا چرکہ برداشت کرتا ہے، ہر روز ایک نیا ظلم سہتا ہے اور ہر روز ایک نئی قربانی دینے کا جذبہ لے کر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور یہ تمغہ کوئی نہیں بلکہ ”ڈو مورکا تمغہ“ ہے۔
پاکستان میں وفاقی حکومت کو ایک جانب سے اِس امریکی ڈو مور کے تمغے کا سامنا ہے تو دوسری جانب سے اپوزیشن کے ”ڈو مور“ کے کلہاڑے کا بھی سامنا ہے۔اس کلہاڑے کو کندھے پر رکھ کر پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری ایک مرتبہ پھر میدان میں ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک احتساب اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے تحریک قصاص شروع کردی ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی تحریک کو پانامہ لیکس کی تحقیقات کے ساتھ نتھی کررکھا ہے۔ عمران خان پانامہ لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے ٹی او آرز کے تحت کمیشن کی تشکیل کو تحریک کے خاتمے کی شرط تو قرار دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے خلاف گلی گلی تحریک چلانے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے احتجاج سے نمٹنے کیلئے اپنا الگ لائحہ عمل مرتب کرلیا ہے۔ اس لائحہ عمل کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ساتھ قانونی لڑائی لڑے گی۔ اس سلسلے میں گزشتہ دھرنوں کے دوران طاہر القادری اور ان کی جماعت کے کارکنوں پر بننے والے مقدمات میں بھی تیزی دیکھنے میں آسکتی ہے اور مخالفین کو رگڑا دینے کیلئے گرفتاریاں بھی عمل میں آسکتی ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف سے بھی قریب قریب اسی انداز میں نمٹا جائےگا، اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کی جانب سے عمران خان کی نااہلی سے متعلق ریفرنس قومی اسمبلی کے اسپیکر کے دفتر میں جمع کروا یا جاچکا ہے۔ سڑکوں پر آنے کے ساتھ ساتھ اسی طرح کی لڑائی قدرے ڈھیلے ژ انداز میں پی ٹی آئی بھی لڑ رہی ہے، اسی لیے پی ٹی آئی کے ریفرنس کے نہلے پر مسلم لیگ ن کے ریفرنس کو دہلا قرار دیا جارہا ہے۔ یہ ریفرنس مسلم لیگ ن کے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کی طرف سے دائر کیا گیا ہے، جس میں عمران خان کی طرف سے ٹیکس چھپانے کے لیے آف شور کمپنی بنانے کے اعتراف، گوشواروں میں اپنے اثاثے چھپانے اور پاکستان میں عمران خان کی جائیداد اور اس پر بننے والا ٹیکس ادا نہ کرنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
قارئین کرام!!پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کی اِن نئی تحریکوں کا انجام کیا ہوگا؟ یہ سوال آج کل ہر کسی کی زبان پر ہے، لیکن جو اصل بات ہے وہ یہ ہے کہ تحریک قصاص ناکام ہونے کا ڈاکٹر طاہر القادری کو تو شاید اتنا نقصان نہیں ہوگا کیونکہ پارلیمنٹ تو کجا کسی یونین کونسل میں بھی اُن کا نمائندہ منتخب نہیں ہوسکا، لیکن پی ٹی آئی ناصرف پارلیمنٹ اور تین صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہے بلکہ کے پی کے میں اس کی حکومت بھی ہے تو اس تحریک کی ناکامی سے عمران خان کو شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ اپوزیشن کو پیچھے چھوڑ کر سولو فلائٹ لینے کا فیصلہ عمران خان کو پھر وہیں لاکھڑا کرے گا، جہاں وہ دو سال پہلے والے دھرنے کی ناکامی کے بعد کھڑے تھے۔عمران خان ٹھنڈے دماغ سے ایک نظر ماضی میں ڈالیں اور پھر سوچیں کہ دو سال پہلے آپ کہاں کھڑے تھے؟