کل مارکیٹ سے واپسی پر اچانک میں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس کے بعد نہ کل میں کھانا کھا سکی اور نہ ہی سو سکی۔ میرے سامنے اچانک ایک گھر سے بیس بائیس سال کا لڑکا بالکونی سے گرا۔ بالکونی بمشکل پندرہ فٹ اونچی ہوگئی۔ لڑکے نے اچانک گرنے کی وجہ سے ساتھ لگے ہوئے کھمبے کو پکڑنے کی کوشش کی۔ کھمبا تو ہاتھ میںنہ آیا لیکن ایک لٹکی ہوئی تار ہاتھ میں آگئی۔ وہ دھڑام سے نیچے گرا اور مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگا۔ وہ مدد کے لئے پکارنا چاہتا تھا لیکن اس کے منہ سے آواز نہ نکل سکی۔ اُسی گھر کے گیٹ پر ایک نوجوان لڑکا اور دو بچے کھڑے تھے جو اُسکے بالکل سامنے کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ اسی گھر سے وہ لڑکا گرا تھا۔ غالباً کیبل صحیح کررہا تھا لیکن وہ تینوں ٹس سے مس نہ ہوئے۔ لڑکا مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔ میری قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ میں گاڑی روک کر باہر نکلی اور غصے سے بولی۔ یہ مرجائے گا، اسے بچاﺅ۔ جلدی سے کوئی لکڑی لاکر اسے ہٹاﺅ۔“ مجھے غضبناک دیکھ کر اُس لڑکے نے پاس پڑے ہوئے بانس سے اُس کے ہاتھ سے تار پیچھے کی۔ کرنٹ لگنے والا لڑکا جاکرسڑک پر گرا اور تڑپ تڑپ کر آخری سانسیں لینے لگا۔ میرا دل خوف، اذیت اور دہشت سے بھر گیا۔ میں سڑک پر ہی رُو رُو کر اُس کی زندگی کی دُعا مانگنے لگی۔ میری بیٹی نے مجھے گاڑی میں بٹھایا۔ میرا سر بری طرح چکرا رہا تھا۔ میں گاڑی دوسری سڑک پر لے گئی۔ میں نے پانی پیا۔ دیکھا تو بیٹی بھی بہت زیادہ اپ سیٹ تھی۔ یہ سب کچھ بمشکل دو منٹ میں ایک زندہ، صحت مند، ہنستا مسکراتا نوجوان تڑپ تڑپ کر مرگیا۔ ایک بجلی کی تار نے کسی ماں کی گود اجڑ دی۔ زندگی کتنی ناقابل بھروسہ ہے۔ انسان کتنا غرور کرتا ہے کتنی پلاننگ کرتا ہے اور کتنا دوسروں کی زندگیوں میں زہر گھولتا ہے لیکن ایک لمحہ لگتا ہے جب انسان کی اپنی زندگی اُسے دھوکہ دے جاتی ہے۔ موت نرم گرم بستر میں بھی آجاتی ہے اور سڑک پر بھی لیکن یہ جو واپڈا کی ننگی ، سستی اور گھٹیا تاریں ہیں جو پاکستان میں ہرروز ڈیڑھ درجن لوگوں کی جانیں لے لیتی ہیں۔ کیا کبھی واپڈا کو احساس ہوا ہے کہ اس کی غیر ذمہ دارانہ اور مجرمانہ حرکتوں کی وجہ سے اب تک دو لاکھ سے زائد افراد مرچکے ہیں۔ اگر آپ اندرون شہر چلے جائیں تو ہر جگہ پر بجلی کی تاریں سروں پر جھول رہی ہوتی ہیں۔ دیواروں، ٹین کی چھتوں، سڑکوں غرضیکہ ہر جگہ بے رحمی سے لٹکی ہوئی ہیں بلکہ پاکستان کے ہر شہر قصبے گاﺅں میں یہ ننگی تاریں ملک الموت کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ واپڈ اپاکستان کا مہنگا ترین ادارہ ہے جو بجلی کم دیتا ہے اور خون زیادہ چوستا ہے۔ واپڈا کے سربراہ کی تنخواہ میں ڈیڑھ سو خاندان پل سکتے ہیں لیکن واپڈا کا جو بھی سربراہ آتا ہے، کوئی بہتری نہیں لاتا۔ پاکستان میں دنیا کی مہنگی ترین بجلی فروخت کی جاتی ہے۔ گھر کے تمام اخراجات ایک طرف اور بجلی کا بل ایک طرف۔
اس وقت پورا پاکستان موت کے کنویں میں زندگی کی موٹر سائیکل چلا رہا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کس کو کب موت کا پنجہ دبوچ لے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو لوگ کنالوں، مربعوں، ایکڑوں کے گھروں میں نوکروں کی فوج ظفر موج کے ساتھ رہتے ہیں۔ انہیں موت نہیں آتی۔ وہ بھی اچھے کھانوں کے باوجود انواع و اقسام کی بیماریوں سے مر جاتے ہیں۔ کسی ہوائی حادثے، ہارٹ فیل، برین ہیمبرج، کینسر، کسی دشمن کی اندھی گولی یا زہر خورانی سے انہیں بھی موت آ جاتی ہے لیکن عوام کیلئے تو موت کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ پاکستان میں ہر سال 40 ہزار لوگ ٹریفک حادثات میں بن موت مر جاتے ہیں اور ایک لاکھ سے زائد افراد زخمی ہو جاتے ہیں۔ ہزاروں خاندان اجڑ جاتے ہیں جس طرح واپڈا بھنگ پی کر سویا ہوا ہے۔ اسی طرح ہر اناڑی کو سفارش پر لائسنس جاری کر دیئے جاتے ہیں۔ لاہور کی خوبصورتی اور ترقی لاہوریوں کے لئے وبال جان بن گئی ہے۔ لاہور میں گرد و نواح سے ہر سال تیس چالیس ہزار افراد دیہاتوں قصبوں سے آ کر بس جاتے ہیں۔ یہ بالکل جاہل گنوار ہوتے ہیں۔ عورتیں گھروں میں کام کرتی ہیں اور مرد چنگ چی، رکشے، ویگنیں، موٹر سائیکلیں چلاتے ہیں۔ انہیں نہ تو ڈرائیونگ کے اصول و ضوابط کا علم ہوتا۔ دو چار دن کسی سے موٹر سائیکل رکشہ ویگن چلانا سیکھ لیتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں اپنے رائیٹ چلنا یا لیفٹ، موٹر سائیکل رکشہ چنگ چی پر لائیٹ لگانی ہے۔ اوورٹیک کرنے کا کیا طریقہ ہے۔ سگنل کو کیسے فالو کرنا ہے۔ یہ لوگ حشرات الارض کی طرح پورے لاہور کو آلودہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈرائیونگ کو جان لیوا بنا دیا ہے۔ جاہلوں کی طرح انتہائی اونچی آواز میں گانے لگا کر سر میں درد کر دیتے ہیں۔ گانا انہوں نے سننا ہوتا ہے لیکن پوری سڑک پر ہنگامہ ہوتا ہے۔ اپنی چھوٹی اور گھٹیا گاڑیوں میں پریشر ہارن لگا کر رکھتے ہیں اور اس قدر بدتمیزی سے بار بار ہارن بجاتے ہیں کہ اکثر دل چاہتا ہے بندہ ان کے سر میں اینٹ مار کر دو ٹکڑے کر دے۔ کوئی ایمبولینس جا رہی ہو لیکن یہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ گاڑیوں کے ٹیکس ہم ادا کرتے ہیں اور یہ سڑک اس قدر بدتمیزی سے استعمال کرتے ہیں جیسے سڑکیں انکے ابا کی جاگیر ہیں۔ ان کے پاس کھانے کو پیسے نہیں ہونگے لیکن موبائل اور اُس کے ساتھ ٹونٹی انکے کانوں میں اُڑسی ہو گی۔ آپ ہارن دیتے رہیں لیکن یہ گانے سُنتے یا موٹر سائیکل چنگ چی پر موبائل پر اربوں کے بزنس کرتے رہیں گے۔ آپ جتنی مرضی محفوظ ڈرائیونگ کر لیں لیکن یہ لازماً آپکی نئی نویلی گاڑی پر سکریچ لگا کر جائیں گے۔ انہیں رائیٹ کی طرف مڑنا ہو گا لیکن یہ مسلسل لیفٹ کی سائیڈ چلتے رہیں گے یا لیفٹ جانا ہو گا تو رائیٹ سائیڈ ہی چلتے رہیں گے یہاں تک کہ دوسرا جھنجلا جائے گا۔ ٹریفک پولیس کبھی ٹریفک قوانین کو توڑنے پر چالان نہیں کرتی۔ کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹس یا انڈیکیٹرز نہ ہونے پر چالان نہیں کرتی۔ کبھی تیز رفتاری یا موبائل کے استعمال پر چالان نہیں کرتی۔ ٹریفک پولیس اس بات پر چالان کر دیتی ہے کہ ایک ٹائر زیبرا کراسنگ پر کیوں آیا۔ گاڑی کی بک کیوں نہیں ہے۔ بیلٹ کیوں نہیں باندھی۔ بڑے بڑے ٹرک، ویگنیں، ٹرالے، پک اپ، ریڑھے جس پر منوں سامان لدھا ہوتا ہے اور سریے آٹھ دس فٹ باہر نکلے ہوتے ہیں۔ رات کے وقت سینکڑوں ایسی وہیکلز بغیر لائٹ کے گزرتی ہیں اور انسان موت کے منہ سے بال بال بچتا ہے۔ موٹر سائیکلوں، رکشوں، ریڑھوں، تانگوں کو انتہائی لیفٹ چلنا چاہیے۔ لیکن یہ سب انتہائی رائیٹ سائیڈ پر چل کر جہاں ٹریفک کے فلو کو متاثر کرتے ہیں وہاں ہر وقت حادثات کا سبب بنتے ہیں کیونکہ رائیٹ سائیڈ پر تیز وہیکلز چلتی ہیں۔ ان ساری جہالتوں کی وجہ سے ہر روز سو سے ڈیڑھ سو افراد ٹریفک حادثات میں مر جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے سیاستدان تو ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں۔ اس ملک میں ہر روز چھ لاکھ عورتوں پر ظلم تشدد بربریت ہوتی ہے لیکن کبھی کسی حکمران نے کسی عورت کی مدد نہیں کی۔ کسی کو انصاف نہیں دیا۔ ہر روز درجنوں عورتوں کا اغواءریپ اور قتل ہوتا ہے کیا کبھی حکومت نے ان دکھیاری مظلوم مقہور عورتوں کے سروں پر ہاتھ رکھا۔ بس یہی پوچھنا تھا....