اپنے عمران خان صاحب بھی بادشاہ آدمی ہیں۔ 2013ءکے انتخابات کے بعد اس کے لئے چلائی مہم کے دوران لگی چوٹ سے صحت یاب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں تشریف لائے تو 4 حلقے کھولنے کا مطالبہ کردیا۔ نواز حکومت نے اس مطالبے پر کماحقہ توجہ نہ دی تو”جعلی انتخابات“ کی بدولت ”چور اور لٹیروں“ پر مشتمل قومی اسمبلی سے نجات پانے کے لئے اسلام آباد میں 126دنوں تک پھیلا دھرنا دیا۔ اس دھرنے کے دوران عیاں ہوگیا کہ ہماری ریاست کے دائمی ادارے بھی ہمارے آئین کے مطابق ”سب پر بالادست پارلیمان“ کو خاص اہمیت نہیں دیتے۔ اس کے قائد یعنی وزیراعظم کو بچانے کے لئے ان اداروں نے کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ پولیس اہلکار بلکہ تحریک انصاف کے جذباتی کارکنوں سے اپنے تحفظ کی بھیک مانگتے رہے۔ اس دھرنے کے ذریعے عمران خان صاحب نے ایمپائرکو انگلی اٹھاکر نوازشریف کو کریز سے باہر نکالنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ہمارے روایتی ”ایمپائر“ نے مگر انگلی نہ اٹھائی۔ بدقسمتی سے APS والا واقعہ بھی ہوگیا۔ جس نے ریاستی اداروں کی تمام تر توجہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضربِ عضب پر مبذول کردی۔ اس آپریشن کی شاندار کامیابی نے سعودی عرب کو یہ خواہش پالنے پر مجبور کیا کہ وہ پورے عالمِ اسلام کو ہمارے دینِ مبین کی غلط تشریحات کے ذریعے پھیلائی دہشت گردی کے مقابلے کے لئے ایک ”مسلم نیٹو“ کا قیام عمل میں لائے۔ آپریشن ضرب عضب کے کمان دار، ہمارے جنرل راحیل شریف صاحب کو مجوزہ اتحاد کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔ امریکی صدر کے حالیہ دورئہ سعودی عرب کے دوران ٹرمپ کے داماد نے، جو وائٹ ہاﺅس کی مشرقِ وسطیٰ کے بار ے میں پالیسی سازی کے عمل میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے، ایک سرکاری ضیافت کے دوران اپنا سارا وقت ہمارے جنرل صاحب کے ساتھ ایک میز پر بیٹھے گزارا۔ اس میز پر تیسرے شخص صرف شاہزادہ محمد بن سلمان تھے جو اب باقاعدہ ولی عہد بنا دئیے گئے ہیں۔ عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہونے کے دعوے دار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیراعظم کو اس دورے کے دوران قطعی کوئی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ ٹرمپ کی جانب سے نواز شریف کو اس دورے کے دوران جان بوجھ کر نظرانداز کرنا واضح طور پر بلکہ یہ پیغام دے رہا تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم کے منصب سے ان کا فارغ ہونا ٹھہر چکا ہے۔ صبح گیا یا شام گیا۔
نواز شریف کی فراغت کا حقیقی بندوبست ہمارے عمران خان صاحب ہی نے تو کیا تھا۔ 4 اپریل 2016ءکی صبح پانامہ دستاویزات ایک دھماکے کی صورت نمودار ہوئیں۔ اس میں نواز شریف کے بچوں کے نام آئے تو تحریک انصاف نے نواز شریف سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ وہ استعفیٰ دینے پر رضا مند نہ ہوئے تو خان صاحب سپریم کورٹ چلے گئے۔ سپریم کورٹ نے ان کی ابتدائی درخواست کو ”فروعی“ بتاکر واپس بھیج دیا تو عمران خان صاحب نے اپنے وکلاءکی مدد سے اسے جاندار بنایا۔ سپریم کورٹ نے اسے قابل سماعت قرار دینے میں دیر لگائی تو ضدی اور ثابت قدم عمران خان نے اسلام آباد کے لاک ڈاﺅن کا اعلان کردیا۔ ان کی دائرکردہ درخواست اس لاک ڈاﺅن کی بدولت نہ صرف باقاعدہ بلکہ روزانہ کی بنیادوں پر سماعت کے لئے منظور ہوگئی۔ کئی ماہ کی پیشیوں، ریاست کے 6 دائمی اداروں کی جانب سے ہوئی تفتیش اور عمران خان صاحب کی جہد مسلسل کے باعث بالآخر نواز شریف 28 جولائی 2017 کو ایک تاریخی فیصلے کے ذریعے ”نااہل“ قرار دے کر وزاتِ عظمیٰ سے فارغ کردئیے گئے۔ خان صاحب اور ن کی جماعت نے اس ”نااہلی“ پر یومِ تشکر منایا۔ اسلام آباد کی پریڈ گراﺅنڈ میں عوام کے ٹھاٹیں مارتے سمندر نے اس تقریب کے دوران سپریم کورٹ کے ”5 عظیم ججوں“ اور JITکے ”قومی ہیروز“ کی ستائش میں مسلسل زندہ باد کے نعرے لگائے۔ایک طویل اور جاںگسل تحریک کے بعد نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کروانے کے بعد مگر عمران خان صاحب کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ ”نااہل“ قرار دیا یہ سیاست دان جسے سپریم کورٹ نے ”گاڈ فادر“ بھی کہا، بدھ کے روز جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہورجاتے ہوئے ”نظام“ کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ اور NABکو اپنے ”ہاکیوں والے“ دکھاکر دباﺅ میں ڈالنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔
خان صاحب کی جانب سے اتوار کی سہ پہر نواز شریف کی جانب سے جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور جانے کے فیصلے کے خلاف جاری ہوئے بیان کو میں نے دوبار غور سے پڑھا۔ ایمان داری کی بات ہے مجھے ہرگز سمجھ نہیں آئی کہ نواز شریف کی بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور روانگی”نظام“ کو خطرے میں کیسے اور کیوں ڈال سکتی ہے۔ وہ ”نظام“ جس کے بارے میں عمران خان صاحب بہت فکر مند دکھائی دے رہے ہیں، اس کے تحت سپریم کورٹ سے نااہل ہوئے نواز شریف کا نامزد کردہ شاہد خاقان عباسی اب اس ملک کا وزیراعظم ہے۔ اس ”نظام“ کے تحت اٹک سے رحیم یار خان تک پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کوئی اور نہیں نواز شریف کے سگے بھائی شہباز شریف ہیں۔ نواز شریف ان دونوں کی فراغت کے لئے تو کوئی تحریک چلانے سے رہے۔ سپریم کورٹ پربذریعہ جی ٹی روڈ لاہور جاتے ہوئے نواز شریف کوئی ”دباﺅ“ ڈال کر بھی اب اپنے لئے کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے موصوف کو تاعمر کوئی منتخب عہدہ رکھنے کے لئے نااہل قرار دے دیا ہے۔ آئندہ 6 مہینوں کے دوران سپریم کورٹ کے ایک عزت مآب جج کی براہِ راست نگرانی میں نواز شریف اور ان کے قریبی عزیزوں کو احتساب عدالتوں کے روبرو اپنے خلاف لگے الزامات کا جواب بھی دینا ہےے۔ ان دونوں فیصلوں سے مفر کسی بھی صورت ممکن ہی نہیں۔ فیصلہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کا ہے جس کے خلاف اپیل کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔عمران خان صاحب نے ویسے بھی نواز شریف کو صرف وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہی نہیں کروانا تھا۔ عہدان کا یہ بھی تھا کہ نااہل قرار پائے نواز شریف کو اڈیالہ جیل بھی پہنچائیں گے۔ ان کی تمام خواہشیں اب پوری ہورہی ہیں۔اس کے باوجود عمران خان صاحب نجانے کیوں فکرمند ہیں۔ نواز شریف کو جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور جاکر پنجابی والا ”چائ“ اُتارلینے دیجئے۔ پاکستان کی ریاست،اس کے دائمی ادارے اور ہماری اعلیٰ ترین عدالت ہرگز اتنی کمزور نہیں کہ نااہل ہوا ایک سیاست د ان اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور پہنچے اور سب کچھ ہل کر رہ جائے۔1977 میں بھی غالباََ اگست ہی کا مہینہ تھا جب جنرل ضیاءکے ہاتھوں فارغ ہوئے ذوالفقار علی بھٹو لاہور پہنچے تو ان کا شاندار استقبال ہوا۔ اس ”استقبال“ نے جنرل ضیاءالحق جیسے رحمدل اور نیک طینت انسان کو بھی مجبور کردیا کہ وہ بھٹو کے خلاف احمد رضا قصوری کی دائر کردہ FIRکو فائلوں سے نکال کر لاہور کے جسٹس مشتاق مرحوم کے ہاتھوں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔نواز شریف کا ”استقبال“ بھی ان کے لئے خیر کی خبر نہیں لائے گا۔ریاست کے تمام دائمی اداروںنے باہم مل کر انہیں عبرت کا نشان بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اپنی بھرپور عوامی قوت کی بدولت خان صاحب اس مشن کی تکمیل کے لئے ان اداروں کے اہم ترین سہولت کار ثابت ہوئے ہیں۔ وہ سہولت کاری کے اس عمل کو جاری رکھیں۔ ”نظام“ کو ہرگز کچھ نہیں ہوگا۔
٭٭٭٭٭
”نظام“ کو ہرگز کچھ نہیں ہوگا
Aug 08, 2017