’’ انتخابات شو ‘‘ ختم ہوگیا ، جو بھی ہوا ، جیسے بھی ہوا ، مگر یہ حقیقت ہے کہ عوام کی زندگیاں اجیرن تھیں گزشتہ ستر سالوں سے چونکہ قائد اعظم کے بعد ملک کو سیاست دان تو ملے مگر رہنما نہ مل سکے ، جوں جوں پاکستان کی تاریخ پرانی ہوتی گئی کھانے پینے کے ذرائع مختلف ہوتے گئے ، پاکستان کو لوٹ کر دولت باہر بھیجانا ایک معمول بن گیا ۔ سیاست دانوں کا سٹیٹس یہ تھا کہ کس کی کتنی جائیداد اور رقم باہر موجود ہے ۔ سیاست دان جب بھی انتخابات آتے گزشتہ حکومت کو چور کہتے ہیں، عوام کے مسائل کی ہائی دیتے اقتدار میں آتے اورفوری ہی کہہ دیتے کہ خزانہ تو گزشتہ حکومت نے خالی چھوڑا ہے ، ملک کو بری حالت میں چھوڑ کر گئے ہیں وغیرہ وغیرہ میری بیان کردہ یہ کہانی پاکستان کے بچے بچے کو ذہن نشین ہے کیونکہ یہ کہانی کبھی دو سال ، کبھی چار اور کبھی پانچ سال دہرائی جاتی ہے لوڈو کا کھیل ہوتا ہے جس میں گوٹیاں وہی ہوتی ہیں جو کبھی ہارتی ہی کبھی کامیاب ہوجاتی ہیں۔ جو کبھی پیلے گھر میں کبھی لال کبھی نیلے ، اور کبھی پیلے گھر میں ہوتی ہیں گوٹیاں وہی ہوتیںجو لوڈو کے ساتھ آتی ہیں ۔ اسی طرح ہمیں سیاست دان بھی وہی ملے جو لوڈو کے ساتھ آئے ۔ حالیہ انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی نئی لہر آئی ، یہ اور بات ہے کوئی کہتا ہے کہ لائی گئی، اگر لائی بھی گئی ہے تو اب یہ کھیل لوڈو کا نہیں کیرم بورڈ کا ہے جس میں گوٹیوںکو ہٹ کرنے والا striker تبدیل ہوا ہے اور امید ہوچلی ہے میڈیا کے ذریعے کہ شائد یہ striker گوٹیوںکو اچھی طرح کھیلے مگر کیرم بورڈ کی گوٹیاں بھی بد قسمی سے پرانی ہی ہیں جنہیں انتخابات کے طریقہ کار سے شکائت تھی و ہ سمجھ رہے تھے کہ الیکشن کمیشن بد انتظامی جسے ’’دھاندلی ‘‘بھی کہا گیا میں اپنی غلطی مانتے ہوئے استعفے دے دیتا تو شکائت کنندہ شائد غلطی معاف کردیتے چونکہ دوبارہ انتخابات تو ممکن نہیں وہ لوگ جنکی گزشتہ تیس سال سے کبھی کشمیر کمیٹی اور ہر حکومت کا حصہ بننے والوںکی روزی ماری گئی بچکانہ مطالبہ یہ رہا کہ انتخابات دوبارہ کرائے جائیں انہیں شائد پتہ ہی نہیں کہ انتخابات کے انعقاد میں 21 ارب روپیہ بتایا گیا جو خرچ ہوا ہے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پکڑ دھکڑ ہی سہی مگر نمبر پورے ہوگئے ، ایک معصوم ووٹر نے پوچھا بھی کہ جہانگیر ترین اپنی وزارت اعظمی کیلئے بہت باگ ڈور کررہے ہیں ، ووٹر کو بتایا گیا کہ وہ تو عدالت سے تاحیات نااہل ہیں اور صادق اور امین بھی نہیں ،جسے معلومات نہ ہوں اگر اسے کوئی جواب دے دو تو وہ پھر سوالات کی بوچھاڑ کردیتا ہے فوراً ہی ووٹر نے سوال کر ڈالا ’’اوہو ،، تو نواز شریف بھی تو صادق اور امین نہیں اور نااہل ہیں پھر وہ جیل میں کیوں ہیں ‘‘اسکا جواب میں نے اسلئے نہیں دیا کہ آگے نہ جانے کیا کیا سوال کر بیٹھے گا ، میں نے یہ یہی کہا کہ نئی حکومت آگئی ہے اسکی حمائت کرو ملک کو درپیش بے شمار مسائل ہیں دعا کرو کہ نئی حکومت وہ مسائل حل کرنے پر توجہ دے ، ووٹر نے دعا دی کہ سر ! اللہ کرے ایسا ہی اور ہمارا ملک ترقی کی طرف جائے مگر ساتھ ہی یہ دعا بھی ہے کہ یہ حزب اختلاف والے سنا ہے بڑی تعداد میں ہیں وہ بھی کہیں تحریک انصاف کی طرح ’’دھرنے بازی ‘‘نہ کریں جس طر ح دھرنوں سے حکومت کو مفلوج کیا گیا خدانخواستہ اگر موجودہ حزب اختلاف نے بھی یہ ہی راہ پکڑ لی تو ایک مرتبہ پھر ہمارے ملک کا تماشہ بنے گا ۔ باتیں ووٹر ٹھیک کررہا تھا۔ نئے وزیر اعظم یا تحریک انصاف اگر یہ کہتی ہے کہ ہم اس ملک کو قائد اعظم کا اصل پاکستان بنایں گے تو قائد اعظم سے محبت کرنے والے یہ محسوس کرتے ہیں کہ قائد اعظم نے ملک پاکستان کیلئے جدوجہد کے نتیجے میں امورحکومت کا جو طریقہ کار بتایا تھا اس سے ہم دور بلکہ بہت دور ہیں ۔ نیا پاکستان کی گردان اچھی نہیں لگتی۔ بہرحال اب فوری ضرورت ہے کہ جیسا میں نے شروع میں لکھا کہ عوام دھوکہ دہی کا شکار ایک طویل عرصے سے ہورہے ہیں عوام کو بین الا اقوامی معاملات میں گھرے پاکستا ن کو درپیش مسائل کا شعور نہیں انہیں انکے نزدیک ؛ بیروز گاری ، مہنگائی ، بجلی کی فراہمی ، صاف پانی ، بچوں کی تعلیم ، امن و امان پہلی ترجیح ہے جبکہ عمران خا ن اور ٹیم ترجیحات میں ڈھیروں بوجھ تلے بیرونی مسائل ، معیشت کی درستگی، بیرون ملک پاکستانیوں کے جائز و ناجائز ( نا جائز ہی ہوگا )دولت کی واپسی۔ حال میں خلیج میں ظہور پذیر 10 کھرب روپیہ جو سیاست دانوں کا ہی نہیں چونکہ سیاست دا ن تو بدنام اور کرپٹ ہی ہوتے ہیں ان دس کھرب میں بتایا گیا ہے کہ معززین جن میں اعلی فوجی افسران، میڈیا ہائوس کے مالکا ن اور دنیا کو دیانت داری کا سبق دینے والے ،کرپٹ لوگوں سے پردہ اٹھانے والے صحافی دوستوں کی ایک خطیر رقم ہے ، دو سو ارب ڈالر سوئس بنک میں موجود رقم ، فی الحال پاکستان کی فوری مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے صرف 2 ارب ڈالر چاہئے ۔ بلا تفریق اسطر ف فوری توجہ دی جائے ، ایسا نہیں کہ پنامہ میں موجود 600 مبینہ کرپٹ لوگوںمیں سے صرف نواز شریف اور انکے خاندان پر توجہ دی جائے ۔ امید ہے کہ عمران خان کا لب و لہجہ ، وعدے ، باڈی لینگوئج یہ کہتی ہے کہ وہ فرسودہ طریقوں ، و نظام سے تنگ ہیں تبدیلی لائینگے مگر کیرم بورڈ کی گوٹیاں تو وہی ہیں جو اس کیرم بورڈ پر ستر سالوں سے موجود ہیں صرف sticker تبدیل ہوتا ہے ۔ عمران خان نے ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا نیک نیتی اور وزارت خارجہ کے مشورے پر خان صاحب یہ وزارت خارجہ یہ ہی کرتی ہے آپ نے مذاکرات کی دعوت دی جس کے جواب میںاس بے ایمان پڑوسی نے سرحد پر ہمارے بے گناہ لوگوں کو لقمہ اجل بنادیا ۔