پوری دنیا کی پندرہ بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک کے جلسہ تقسیم اسناد کی تقریب میں شرکت ہی بڑے اعزاز کی بات تھی۔ میں اپنی بیگم فرزانہ خالد کے ساتھ اپنے چھوٹے بیٹے مصطفی خالد کے جانز ہاپکنز یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری مکمل ہونے پر اسکی کانووکیشن کی تاریخ کا منتظر تھا۔ بطور فل برائٹ سکالر امریکہ کی درجن بھر یونیورسٹیوں میں لیکچر دینے کے باوجود مجھے کسی یونیورسٹی کے کانووکیشن میں شرکت کا موقع نہیں ملا تھا۔ اگرچہ کانووکیشن سے ایک روز پہلے ہی فارغ التحصیل طلباء و طالبات کے والدین کے اعزاز میں یونیورسٹی نے ایک پُروقار تقریب کا انعقاد کرکے اس کانووکیشن کے معیار اور وقار یونیورسٹی کی انفرادیت اور اسکے دنیا کی بہترین یونیورسٹی ہونے کے بارے میں ایک انمٹ تاثر چھوڑ دیا تھا مگر اس کانووکیشن کو دیکھنے کے بعد احساس ہوا کہ خیالات و احساسات کی پرواز اس متانت سنجیدگی فخر و انبساط،اور طمانیت کی سرحدوں تک بھی نہیں پہنچ سکتی جو اس عظیم درسگاہ کی پہچان ہے۔ مہمانوں کے ہال میں داخلہ کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ کے اہلکار جتنے مستعد تھے جتنے پرجوش تھے جتنے ملنسار اور آئوبھگت کرنے والے تھے۔ اس سے انداز، ہوتا تھا کہ تربیت کے اعلیٰ معیار کا عملی نمونہ شاید اس جگہ جمع ہو گیا ہے۔ کانووکیشن والا ہال اتنا خوبصورت اس کی گیلریاں عام ہالوں سے بالکل مختلف جیسے ہوائی جہاز کی اکانومی اور بزنس کلاس اور فرسٹ کلاس کا بہت زیادہ فرق واضح بھی ہوتا ہے اور دلکش بھی ایسے ہی یہ ہال تھا۔ آنیوالے سارے مہمان اس کی سحر انگیزی کی زد میں آئے بغیر اپنی نشستوں پر نہیں بیٹھ رہے تھے۔ نشستوں پر بیٹھنے کے بعد ہال کے آرکیٹکچر پر گفتگو کرنا شاید یہاں پہلی دفعہ آنیوالے ہر شخص کی مجبوری بن جاتی ہے۔ تعریف کیلئے الفاظ کم ہو رہے تھے۔ جذبات کو زبان ہی دی جا رہی تھی۔ عظیم درسگاہ کی اپنی عملی ہیئت اس ہال کی ایک ایک چیز سے چھلک رہی تھی۔ بینڈ کی خوبصورت دھنیں مہمانوں کے کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ انتہائی ڈسپلن سے وہ تمام طلباء و طالبات ایک جلوس کی شکل میں ہال میں داخل ہوئے جنہیں آج اس عظیم درسگاہ سے ان کی بڑی کامیابی پر میڈلز اور اسناد مل رہی تھیں۔ سارا ہال بغیر کسی رسمی اعلان کے کھڑا ہو گیا۔ گویا آج یہاں آنیوالے سارے والدین اپنے بچوں کا کھڑے ہوکر استقبال کر رہے تھے۔ ہر آنکھ میں فخر اور چمک تھی۔ طلباء انتہائی قرینے سے اپنی مخصوص نشستوں پر بیٹھ گئے کہ اس عظیم درسگاہ میں پڑھانے والے اساتذہ کا جلوس ہال میں داخل ہوا۔ کس قدر وقار تھا ان اساتذہ کی چال میں کسی قدر پُراعتماد تھا ان کا سراپا ۔ بہت بڑے سٹیج پر یہ اساتذہ جونہی تشریف فرما ہوئے۔ کیری بزنس سکول کی وائس ڈین نے استقبالیہ کلمات کہے۔
اگرچہ پروگرام میں جانز ہاپکنز ایلومینائی ایسوسی ایشن کے صدر اور کلاس 2018ء کی ایک نمائندہ طالبہ کی تقریریں بھی تھیں مگر ان دونوں تقریروں کو ڈین جانز ہاپکنز کیری بزنس سکول اور مہمان خصوصی کے پرمغز خطاب کے درمیان رکھا گیا۔ مہمان خصوصی نے امریکہ کا صدر تھا نہ کوئی گورنر وہ بھی یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کا پروفیسر اور ڈین رہ چکا تھا اور اسے 2013ء ہارورڈ بزنس ریویو میں دنیا بھر کے ٹاپ کے ایک سو بہترین چیف ایگزیکٹو آفیسرز میں شمار کیا گیا تھا۔ کینتھ ڈبلیو فری مین نیویارک سے صرف اس تقریب میں شرکت کیلئے آیا تھا اور اپنے خطاب کے فوراً بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق واپس چلا گیا۔ ڈین نے اپنے خطاب میں کامیاب ہونے والے طلباء و طالبات سے جونہی کہا کہ آپ نے جو کامیابی حاصل کی ہے اور اس عظیم درسگاہ کا حصہ بنے وہ زنذگی بھر کا فخر بھی رہے گا اور اس دنیا میں کامیابی سے اپنا کام کرنے اور انسانیت کی خدمت کرنے کا معتبر حوالہ بھی۔ ذرا اپنے والدین اور اعزواقارب کی طرف منہ کرکے خود دیکھ لیجئے کہ ان کی آنکھوں میں تمہاری کامیابی و کامرانی اور روشن مستقبل کے حوالے سے کتنی چمک ہے۔ جونہی یہ نوجوان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر ہال میں بیٹھے اپنے والدین کی طرف مڑے تو منظر دیکھنے والا تھا۔ والدین کا اپنے ہونہار بچوں کی اس کامیابی پر سر فخر سے بلند تھا۔ آنکھوں میں انکے سنہرے مستقبل کی جھلک تھی۔ کچھ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ ڈین ان فارغ التحصیل نوجوانوں کو نصیحت کے انداز میں نہیں دوستانہ انداز میں کہہ رہا تھا۔
آج جو فخر تمہارے حصہ میں آیا ہے اسکی کوئی ’’ایکسپائری‘‘ نہیں‘ یہ مستقل ہے۔ اس میں تمہاری تعلیم اور ہنرمندی ہر اس ادارے کو تمہیں تمہارا مقام دینے پر مجبور کر دیگی جہاں تم کام کرو گے تم نے اپنی پڑھائی کے دوران یہ بات سیکھ بھی لی ہوگی اور سمجھ بھی لی ہوگی کہ تمہاری مادر علمی نے ووٹنگ کے ذریعے یہ مقام حاصل نہیں کیا۔ یہ محنت اور منصوبہ بندی کا ثمر ہے ۔ یہ میرٹ کی قدر کرنے کا انعام ہے۔ یہ فرض کو پہچاننے اور اسے ادا کرنے کی مکمل مساعی کا نتیجہ ہے۔ محنت نہ رائیگاں جاتی ہے نہ انعام اور اپنے پھل سے محروم رکھتی ہے۔ تم سب نے وہ تعلیم حاصل کر لی ہے جو کامیابی و کامرانی کی سیدھی سڑک محفوظ اور زمانے کی رفتار سے چلنے کے چلن سے روشناس کرا چکی ہے۔ تمہیں زندگی کی راہ پر ناہمواریاں‘ ناانصافیاں اور انہونی باتیں دیکھنے کو ملیں گے۔ تمہاری اس ادارے کی تعلیم اور تربیت تمہیں اپنے صاف شفاف مقصد اور سامنے نظر آنے والی منزل سے بیگانہ کرنے اور تمہارا سفر کھوٹا کرنے کی ہر کوشش کو بے نتیجہ بنانے میں تمہیں مجبور کر دیگی کہ تم حسد‘ بے ہمتی‘ کم ہمتی‘ تھکاوٹ‘ اکتاہٹ کو نظرانداز کردو۔ اپنے کام سے کام رکھو‘ تمہارا یہی عزم ہر منفی رکاوٹ کو تم سے دور کردیگا۔
اس کانووکیشن میں نہ طلباء و طالبات آپے سے باہر ہوئے نہ ٹوپیاں اچھالنے کی چھچھوری حرکت نظر آئی۔ اپنی ٹوپیاں نہ اچھالنے والے دوسروں کی پگڑیاں کیوں کر اچھالیں گے۔ انہوں نے اپنے تعلیم حاصل کرنے کے دوران یہ کچھ بھی نہیں سیکھا نہ اب اس کا اعلان ہوا تھا کہ ادارے کے وقار کا خیال رکھنا ہے۔ سٹیج پر بڑی سکرین تھی جس طالبعلم کو ڈگری حاصل کرنے کیلئے پکارا جاتا اس کا نام اسکے ڈسپلن کے ساتھ آجاتا۔ ڈگری وصول کرتے ہوئے اسکی ایک تصویر کھینچنے کیلئے مستند کیمرہ مین کی خدمات یونیورسٹی نے ہی حاصل کی تھیں۔ ہر طالبعلم اپنی ڈگری لیکرآگے بڑھتا تو اسکے ڈسپلن کا ڈین اس کو مبارک دینے کا منتظر ہوتا۔ یہاں اساتذہ اور طلبہ میں پائے جانے والی وہ اپنایت نظر آئی۔ دوسرا کیمرہ مین یہاں تصویر لیتا اور پھر یہ طالبعلم امریکی فلیگ اور یونیورسٹی کے جھنڈے کے سامنے ایک تصویر بنواتا۔
دنیا بھر میں ایک سو کامیاب ترین بزنس منیجرز میں سے ایک کیناتھ ڈبلیو فری مین نے بھی اپنی تقریر میں تین باتوں پر زور دیا۔ یوں لگتا تھا کہ ڈین اور مہمان خصوصی نے الفاظ کے مناسب‘ بروقت اور برمحل استعمال میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے نہ کوئی لفظ فالتو انکی زبان سے نکلا نہ کوئی ضروری لفظ ادا ہونے سے محروم ہوا۔ فری مین کاکہنا تھا میرے قابل فخر نوجوانوں میں اپنے تجربے کا نچوڑ تمہارے سامنے رکھ کر تم سے درخواست کرونگا کہ اپنے پیشہ ورانہ کردار کو کامیاب بنانے کیلئے کبھی کسی اسائمن پر نہیں نہ کہنا یعنی انکار نہ کرنا۔ ہمیشہ ہاں کہنا بعد میں سوچنا کہ کیسے کرنا ہے۔ راستہ نکلے گا مشکل کام آسان ہوگا۔ آپکی صلاحیت سامنے آئیگی۔ آپ کا اعتماد بڑھے گا۔ آپ کو اپنی تعلیم کا عملی فائدہ نظر آئیگا۔ دوسرے کبھی زندگی میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرنا۔ پیشہ ورانہ امور کو پیشہ ورانہ انداز میں لینا۔ جھوٹی انا کی پرورش نہ کرنا۔ انا پرستی کاکسی بھی پروفیشن میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ یہ پروفیشنلز کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ضد نان پروفیشنل ہونے کی علامت ہے۔ ناکامی کا حوالہ ہے، شکست تسلیم کرنے کا دوسرا نام ہے۔ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ انسانی صلاحیتوں کے فطری اظہار کی راہ میں خود تعمیر کردہ دیوار ہے۔ نالائقوں کا زیور ہے۔ کم حوصلہ لوگوں کا فرار کا ہتھیار ہے۔ (باقی آئندہ)