میجر ریٹارڈ محمد سلیم 22 ایڈن ولاز ماڈل ٹاؤن لاہور
خاکسار آج زندگی کی 98 بہار دیکھ رہا ہے بڑھاپا سو بیماری ہے اللہ کا سد شکر بہت سی بیماریوں کے باوجود چلتا پھرتا اور کار ڈرائیور کرتا ہے۔پاکستان کے یوم آزادی کے دن عمر 25 سال تھی آرمی میں کیپٹن تھاپلٹن کوہاٹ میں تھی ایک آرمی کورس کیلئے اورنگ آباد حیدر آباد دکن میں ماہ اگست 1947ء کو تھا وہاں سے 12 اگست کو فارغ ہو کر بذریعہ ریل (فرنٹیر ایکسپریس) لاہور کیلئے روانہ ہوا ٹرین سنٹرل انڈیا ناگپور، بھوپال، آگرہ، دہلی سے ہوتی ۔ 14 اگست صبح تقریباً 7:00 بجے لدھیانہ پہنچ گئی میں فرسٹ کلاس میں اکیلا مسافر تھا جب کافی دیر تک ٹرین روانہ نہ ہوئی تو میں نے دروازہ کھول کر دریافت کرنے کی کوشش کی دروازہ کھولتے ہی میرے سامنے دائیں بائیں لاشیں ہی لاشیں پڑی تھیں سکھ دندنا رہے تھے ٹرین روک کر مسافروں کا قتل عام ہورہا تھا۔ میں واپس مڑا تو دو سکھ کمرے میں آ گئے میں کپتان کی وردی میں تھا غصہ کی زوردار آواز میں کہا پتہ نہیں یہ فرسٹ کلاس ہے خدا کا کرنا وہ دونوں باہر چلے گئے۔دوسرے پلیٹ فارم پر دیکھا کے ریلوے گارڈ ٹرین چلنے کو سبز جھنڈی دے رہا ہے میں نے پلیٹ فارم کالو ہے کا جنگلہ پھلانگ کر دوسرے پلیٹ فارم پر کود گیا۔ میرے اٹھنے سے پہلے ٹرین چل پڑی تھی لہٰذا بھاگ کر سوار ہو گیا ٹرین بذریعہ فروزپور، قصور ہوتی ہوئی کوئی 12:00 بجے 14 اگست لاہور پہنچ گئی لاہور ریلوے اسٹیشن پلیٹ فارم پر والد صاحب کے ساتھی DSP پولیس آغا محمد یوسف ڈیوٹی پر تھے مجھے دیکھ کر میرے ساتھ لپٹ گئے اور زور زور سے رونا شروع کر دیا میں نے حیران ہو کر پوچھا انکل گھر میں خیر ہے بولے خیر ہے میں تو تم کو خیریت سے آنے پر خوشی سے رو رہا ہوں۔ ریلوے اسٹیشن سے باہر آ کر دیکھا تو ادھر ادھر چند لاشیں پڑی تھیں بعدازاں انہوں نے اپنی سرکاری گاڑی میں دو گارڈز کے ہمراہ گھر کو روانہ کیا۔