ملتان (سماجی رپورٹر) جس زمین‘ ہوا اور ماحول میں انسان پیدا ہوتا ہے کھیلتا ہے جوان ہوتا ہے اس سے محبت ایک فطری عمل ہے انسان ان سے جدا ہوتے ہوئے کافی پریشان ہو جاتا ہے مگر آزادی کی نعمت ان سب عوامل پر بھاری ہے۔ ان خیالات کا اظہار ضلع روہتک تحصیل سونی پت کے گاؤں رسول سے تحصیل کوٹ ادو میں ہجرت کرنے والے مڈل پاس شریف الدین تگہ نے ’’ہم نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ میں ہجرت کی کہانی بیان کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ میرے والد کھیتی باڑی کرتے امی بھی کھیتوں میں ان کا ہاتھ بٹاتیں‘ میں بھی لسی اور کھانا دینے کھیتوں میں روزانہ جاتا دور دراز کے شہروں میں ہندوؤں کی طرف سے مار دھاڑ اور قتل کا سلسلہ جاری تھا البتہ ابھی دیہات اور گاؤں اس کی لپیٹ میں نہیں آئے تھے ایک صبح کھیتوں میں ہل جوتنے جا رہے تھے کہ ہندوؤں حملہ آور ہوئے تو میں اپنے والد کے ہمراہ کھیتوں میں چھپ گیا کیونکہ فسادات نہ صرف بھڑک چکے تھے ہندوؤں کا گروہ ایک گاؤں پر حملہ آور ہوتا اور تیل چھڑک کر آگ لگا دیتے۔ تاہم بڑے بزرگوں نے گاؤں چھوڑنے کی ٹھان لی۔ اگلی صبح ضلع کرنال کے ایک قصبہ گنور کی طرف چل دیئے۔ جہاں پر ایک مسلمان نواب اسحاق نے قلعہ بنایا ہوا تھا ہندوؤں کو اس قلعہ کا علم تھا مگر نواب کے کافی اسلحہ کے باعث ادھر کا رخ نہ کرتے کوئی ایک ماہ بعد نواب کے پاس اسلحہ ختم ہوا تو چند فوجی اور ہندو قلعہ میں داخل ہو گئے اور نواب اسحاق کی بوٹی بوٹی کر کے باہر پھینک دیا اور ہندوؤں نے اس قلعہ پر اپنا جھنڈا گاڑ دیا اس دوران ہمارا قافلہ دوسرے صوبہ یو پی کے ضلع میرٹھ کی طرف روانہ ہوئے راستہ میں بہت جھڑپیں ہوئیں جس میں دادا کرم الدین اور دادی اماں شہید ہو گئے جبکہ امرتسر میں ایک گاؤں کے سینکڑوں مسلمانوں کو آگ لگا کر ہندوؤں نے زندہ جلا دیا اسی دوران پیدل سفر کے دوران پاؤں چلنے سے عاری تھے کہ اعلان ہوا کہ مسلمان واپس نہیں پاکستان بھیجا جائیگا۔ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان بیگہ میں جمع ہو گئے مال مویشی کو نکلتے ہوئے ان کی رسی کاٹ دیتے صرف چند برتن 2 تولہ زیور اور 5 کلو چاندی ابا جان نے ایک تھیلہ میں ڈالے ہوئے تھے جنہیں بیچ بیچ کر راشن لیتے۔ اسٹیشن گنور پر گاڑی انتظار میں تھی۔ ریل گاڑی میں ریت کی بوریوں کے مورچے بنائے ہوئے تھے۔ پیاس کی شدت کے باعث ڈرائیور نے جنگل میں ایک گڑھا دیکھ کر گاڑی روکی پانی پینے چلے تو وہاں نعشیں تیرتی نظر آئیں اور گڑھا خون آلودہ ہو چکا تھا یوں لاہور سے ہوتے ہوئے ہنجرا ہاؤس دائرہ دین پناہ کے قریب گاڑی رکی اور ہم یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ 1956ء میں نارمل سکول مظفرگڑھ میں داخلہ لیا مڈل میں زائد نمبروں کے باعث جلد ہی ٹیچر بھرتی کر لیا گیا۔ وہ دور بہت اچھا تھا لوگ ایمان کے پکے اور سچے مسلمان تھے۔
ہندوؤں نے امرتسر میں سینکڑوں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا: شریف الدین تگہ
Aug 08, 2019