کیا بھارت پر حملہ کر دیا جائے

وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی طویل تقریر کے بعد پوچھا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں بھارت پر حملہ کر دوں۔ انہوںنے اپنا سوال دو مرتبہ دہرایا تو اپوزیشن لیڈر سیٹ پر کھڑے ہوئے ۔ وہ کچھ دیر کے لئے ہکلائے،پھر بولے کہ میںنے کب کہا ہے کہ آپ بھارت پر حملہ کر دیں۔ شہباز شریف یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہا ں،میںنے کہا ہے کہ بھارت پر حملہ کر دیں یا یہ پوچھ لیتے کہ بھارت اور کیا کرے گا جب آپ اس پر جوابی حملہ کریں گے۔ اس سوال کے جواب میں وزیر اعظم جو کچھ کہتے،ا س سے عوام کو پتہ چل جاتا کہ ان کا مستقبل کا کیا ارادہ ہے مگر شہباز شریف گونگے بنے رہے اور وہ وزیر اعظم کا منہ نہ کھلوا سکے۔
یہ ہے وہ پیغام جو پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھارت کو دیا ہے اور کشمیریوں کو دیا اور پاکستانی عوام کو دیا۔
پیغام یہ ہے کہ ہم بھارت پر حملے کاا رادہ نہیں رکھتے۔ جبکہ حکومتی وزیر شیخ رشید کہتے ہیں کہ اگلے چند مہینوں میں بھارت آزاد کشمیر پر جارحیت کر سکتا ہے۔
مگر ہمارا پیغام بہت اچھا ہے۔ یہ امن کا پیغام ہے ۔ یہ ذمے دارانہ بیان ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ بات دونوں لیڈروںنے شدید جھنجھلاہٹ میں کی ۔ سنجیدگی سے نہیںکی۔
سنجیدگی کا مظاہرہ تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے کسی مرحلے پر دیکھنے میں نہیں آیا۔ حکومت نے اس اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی ۔ جس پر اپوزیشن نے یہ کہہ کر عدم اطمینان کاا ظہار کیا کہ اس قرارداد میں آرٹیکل تین سو ستر اور آرٹیکل پینتیس اے کا کہیں ذکر نہیں۔ حکومت مان گئی کہ اس قرار داد میں ترمیم کر دیتے ہیں۔
اور پھر اجلاس ایسا ملتوی ہوا کہ گھنٹوں تک پارلیمنٹ کے افق پر اندھیرا چھایا رہا۔
اپوزیشن کو حکومتی قرارداد کا مسودہ قابل قبول نہیں تھا تو وہ اپنا ذہن استعمال کرتی اور ایک جامع قرارداد لے آتی۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ حکومت اپنی عددی برتری کے بل بوتے پر اپنی قرار داد ،منظور کرو الیتی اور چلتے بنتی۔
مگر لگتا ہے کہ مسئلہ قرارداد کے متن کا نہیں تھا،کچھ اور تھا۔ اور شاید یہ تھا کہ وزیر اعظم عمران خان ایوان میں تشریف لائیں۔وزیر اعظم کو شروع ہی میں آجانا چاہئے تھا مگر وہ نہ آئے تو اس کی کوئی وجہ ہو گی۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وزیر اعظم کو صورت حال کی نزاکت کاا حساس نہ تھا۔ یہ الزام اگر کوئی لگاتا ہے تو اس سے بڑا گناہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک امکان ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن کو تہذیب کے دائرے میں رہنے کی یقین دہانی مانگ رہے تھے ۔ اپوزیشن کو یہ یقین دہانی لمحہ بھر کی تاخیر کے بغیر دینا چاہیے تھی تاکہ دنیا اور بھارت کو یہ پیغام نہ جاتا کہ پاکستان کے منتخب نمائندے کشمیر پر انتہائی غیر سنجیدہ ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ جب سے عمران خان کرکٹ کھیل رہے ہیں اور پھر انہوں نے شوکت خانم کی مہم شروع کی اور پچھلے بائیس برسوں تک سیاسی جدو جہد کی تو انہیں پاکستان اور دنیا بھر میں عمران خان کے نام سے ہی پکارا جاتا تھا۔کوئی انہیں خان بھی کہہ لیتا اور کوئی فخر سے کپتان کہہ لیتا۔ مگر اقتدار میں آنے تک کسی کو ان کا پیدائشی نام معلوم نہیں تھا ۔ یہ لطیفہ ا س وقت ہوا جب ایوان صدر میں ان سے وزارت عظمی کا حلف لیا گیا۔ مجھے آئینی اور قانونی نزاکتوں کا علم نہیں ، حلف نامے میں عمران خان ہی لکھا جاتا تو کوئی اور عمران خان کے نام کا شناختی کارڈ لے کر وزارت عظمی کے منصب کا دعویدار نہیں بن سکتا تھا۔ بس یہی وہ لمحہ ہے جب اپوزیشن کو موقع مل گیا کہ وہ عمران خان کا نام بگاڑ سکیں۔ کوئی انہیں عمران نیازی کہتا ہے ۔ کوئی صرف نیازی صاحب کے نام سے پکارتا ہے۔ یہ حرکتیں چھوٹے ذہن کی عکاس تھیں۔ مگر میں یہ بھی سمجھتا ہوں کی وزیر اعظم کو شہبازشریف کی تقریر کے بعد اپنے نام کی وضاحت نہیں کرنا چاہئے تھی۔ اب تو اپوزیشن کو معلوم ہو گیا ہے کہ وزیرا عظم کو کیسے چڑانا ہے۔ یہ بھی زما نہ ا ٓنا تھا کہ ہمارے سیاست دانوں نے پھبتیوں کی بنیاد پر سیاست کرنی ہے۔
نام بگاڑ نے کی رسم ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کی تھی۔ خان قیوم خان کو ڈبل بیرل خان کہا اور اصغر خان اور نور خان کو آلو خان اور کچالو خان کا نام دیا۔
یہ رسم چلی تو ختم ہونے میں نہیں آتی ۔ قوم کو شرمندگی ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔ سیاست دانوں کو اس کی کوئی پروا نہیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا پہلا روز بھی قوم کے لئے شرمندگی کا باعث ہی بنا کیونکہ لیڈر آف ہائوس اور لیڈر آف اپوزیشن دونوں کی طرف سے بھارت کے کشمیر اقدام کے بعد کوئی ٹھوس تجویز پیش نہیں کی گئی۔
پہلا کام پہلے یہ ہونا چاہئے تھا کہ پارلیمنٹ کو بریف کرنے کے لئے دفاعی قیادت کو بریفنگ کے لئے بلایا جاتا،خواہ ا س کے لئے ان کیمرہ اجلاس ہی منعقد کرنا پڑتا مگر آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری تھا کہ بھارت نے جو کچھ کیا،اس سے ہمیں کوئی آگاہی تھی یا نہیں ۔ اگر تھی تو ہم نے سفارت کاری کے ذریعے بھارت پر ایسا دبائو کیوں نہ ڈالا کہ وہ کشمیر کو ہڑپ نہ کر سکے۔ اور اگر ہمیں بھارتی عزائم کی پیشگی خبر نہ تھی تو اس میں کس کی کوتا ہی تھی۔
اب بھارت نے جو کچھ کرنا تھا ، وہ تو ہو گیا ۔ مگر ہمیں کشمیریوں کی حمایت کے لئے کیا کرنا ہے۔ کنٹرول لائن کے بارے میں ہماری کیا سوچ ہے۔ اس کے تحفظ کے لئے ہمیں کیا کچھ کرنا چاہئے۔ بھارت اگلے قدم کے طور پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی واپسی کا مطالبہ کر دے تو ہمیں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا۔ ویسے مودی صاحب واشگاف الفاظ میں دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ بلوچستان، گلگت اور بلتستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوائیں گے۔ یہ مذموم ارادے اور منصوبے ہیں۔ ان کے مقابلے کے لئے ہمیں کیا تیاری کرنی ہے۔یا کیا تیاری کی گئی ہے۔
یہ سوال بہت اہم ہے کہ بھارت نے وادی میں ایک لاکھ فوج مزید بھیجی اور ہمیں اس کا پتہ نہ چل سکا۔اس نے وادی میں تین ماہ کا راشن پانی اکٹھا کیا اور ہمیں اس کے عزائم کی خبر تک نہ ہو سکی۔
یہ بھی سوال قابل غور ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ثالثی کی پیش کش تو کر دی مگر ہمارے وزیرا عظم کو مودی کے اصل منصوبوں سے آگاہ کیوں نہیں کیا جبکہ امریکی وزیر خارجہ تسلیم کر چکے ہیں کہ مودی نے انہیں اپنے منصوبوں سے ا ٓگاہ کر دیا تھا۔ اس اعتراف کے بعد ہمیں امریکہ سے سوال کرنا چاہئے کہ ایک ملک آپ کو اقوا م متحد ہ ا ور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی کے بارے میں کھل کر آگاہ کر رہا ہے تواس نے بھارت کو اس اقدام سے کیوںنہ روکا اور اگر نہیں روکا تو کیا امریکہ یہ مان چکا ہے کہ اب اقوام متحدہ کا وجود لیگ آف نیشنز کی طرح ختم ہو چکا ہے اور اب اس کے نام پر امریکہ یا اقوام متحدہ کو کسی ملک پر پابندیاں عائد کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر یہ پابندیاںلگانا ضروری ہیں تو سب سے پہلے بھارت پر لگائی جائیں۔
ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ہم جو ایٹمی طاقت بنے پھرتے ہیں تو اس کا ہمیں کیا فائدہ ملا یا آئندہ مل سکتا ہے۔ ہمارے ایک سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین کہہ چکے ہیں کہ یہ ایٹم بم شب برات پر پٹاخے چھوڑنے کے لئے نہیں ہیں ۔اسی طرح کی بات بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی نے بھی کی تھی کہ ان کے ایٹم بم دیوالی پر پٹاخے چھوڑنے کے لئے نہیں۔تو اگر ان ایٹم بموں کا کوئی ا ور استعمال ہے تو کب کیا جائے گا۔ اور اگر یہ نہیں کیا جاتا تو باقی سب کہانیاں ہیں۔ آج کشمیر بھارت کے شکنجے میں چلا گیا، کل کو خدا نخواستہ پاکستان ،اسپین کے حشر سے دوچار کر دیا جائے گا۔ اسپین کے مسلمانوں کو بے حس بنا دیا گیا تھا تو ہم نے ثابت کر دیا کہ ہم اسپین کے مسلمانوں سے زیادہ بے حس ہیں ا سلئے کہ ہمارے وزیر اعظم پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں بھارت پر حملہ کرد و ں اور لیڈرا ٓف اپوزیشن جواب دیتے ہیں کہ میںنے حملے کی تجویز نہیں دی۔تو پھر اس پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر وقت کیوں ضائع کیا گیا۔ قوم سے صاف کہہ دیا جائے کہ سرینڈر کی تیاری کرو۔بڑی عید پر بڑی قربانی کا وقت آ پہنچا۔
جب اپوزیشن کی توجہ اپنے اپنے قیدیوںکے پروڈکشن آرڈر پر مرکوز ہو گی تو کشمیر کو بھارت کی قید سے کون چھڑائے گا۔ کسی رکن پارلیمنٹ نے حافظ سعید اور مسعود اظہر کی رہائی کامطالبہ نہیں کیا۔
ہم دنیا میں تنہا ہیں۔ عرب امارات کے سفیر متعین دہلی نے بھارتی اقدام کی حمایت کر دی ا ور چین نے صرف اتنا کہا کہ اسے لداخ کے خلاف بھارتی اقدام پر تشویش ہے۔
کشمیر پر کسے تشویش ہے۔ شاید صرف ہماری پارلیمنٹ کے چند ارکان کو۔ شیخ رشید کی تقریر پر پھر داد دیتا ہوں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...