وارث میر کی وفات ایک المیہ ہے مگر لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ وہ ایسی عمر میںاس جہان سے گزر گئے جب زندگی ان کے ہاتھ میں تھی۔ انہیں کیا ہوا ان کے ساتھ کیا ہوا۔ کہتے ہیں وہ دل کے دورے سے مر گئے۔ وہ تو بڑے دل والے آدمی تھے۔ امیر کبیر آدمی نہ تھے مگر میر تو تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ جو میر ہوتا ہے وہ امیر سے بہت بڑا ہوتا ہے۔ کچھ ایسے میر بھی ہونگے جنہوں نے امیر ہونے کی کوشش کی ہو گی۔ وہ امیر ہو بھی گئے ہونگے تو ان کو امیر کہیں، آخر امیر خان بھی نام ہوتے ہیں۔ اکثر غریبوں کا یہ نام ہوتا ہے۔
ہم تب ادب و صحافت میں نئے نئے تھے۔
وارث میر سے اچانک دوستی ہو گئی۔ یونہی چلتے چلتے کسی کوشش کے بغیر ان سے بے تکلفی بھی ہو گئی پھر دوستی بھی ہو گئی۔ اس میں کوئی تکلف نہ تھا۔ یہ وہ دوستی نہ تھی جسے دشمنی کے مقابلے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ بہت مقبول تھے ۔ پنجاب یونیورسٹی میں ابلاغیات کے شعبے میں صدر شعبہ تھے۔ اُن دنوں صحافت ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ ہم شعر و ادب کے لوگ تھے اور تب سمجھتے تھے کہ صحافت ادب سے کمتر درجے کا کام ہے
جبکہ اب ایسا نہیں ہے۔ اب ادب اور صحافت کی سرحدیں مل گئی ہیں بلکہ رل مل گئی ہیں۔ اب تو کوئی ایسا قابل ذکر ادیب شاعر نہیں جس نے کالم نہ لکھا ہو۔ اب صحافت بھی ادب ہے۔ میں تو کالم نگاری کو سالم نگاری کہتا ہوں۔ احمد ندیم قاسمی نے کالم لکھے۔ بہ شغل منیر نیازی نے بھی تھوڑی دیر کے لیے کسی ارادے کے بغیر کیا۔
مجھے لگتا ہے کہ ایک دن آئے گا کہ کالم ادبی صنف سخن کے طور لیا جائے گا۔ اب دیکھیں کہ صرف کالم لکھا جا رہا ہے۔ ادیبوں نے کالم لکھنا شروع کیا ہے۔ کشور ناہید جیسی شاعرہ کالم کی مخالف خاتون ادیبہ بھی خود کالم لکھتی ہے بلکہ خودبخود کالم لکھتی ہے۔ ہمیں خوشی ہے اور افتخار ہے کہ وہ کالم بھی لکھتی ہیں۔
ہمارے کئی لوگوں نے اپنے کالموں پرمشتمل کتابیں شائع کروائی ہیں۔ اخبار میں کالم ،کتاب میں مزاحیہ ادب کچھ ادیبوں کی ساری کتابیں ہی کالموں پر مشتمل ہیں۔ اس حوالے سے ہم عطا ء الحق قاسمی کے شکر گزار ہیں۔ اپنے آپ کو انٹرنیشنل سفرنامہ نگار سمجھنے والے مستنصر تارڑ بھی باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔ آج اظہار کس طرح کیا جائے۔ آپ کے جو مشاہدہ میں آتا ہے اس کے لیے سفرنامہ، ناول، افسانہ، انشائیہ وغیرہ لکھنا بہت مشکل ہے۔ آج کچھ ہوا تو کل کالم میں چھپ جائے گا۔ ادب پاروں میں محبت کی جا سکتی ہے۔ اظہار محبت کالموں میں ہو گا۔
بہت پسندیدہ صفات کی خاتون فرح ہاشمی میرے گھر آئی۔ اس کے ساتھ ممتاز شاعرہ فریدہ خانم تھی۔ وہ میرے لیے اپنا تازہ شعری مجموعہ لائی۔ کتاب کا نام ’’من‘‘ ہے۔ یہ دل کے معنوں میں آتا ہے اور روح کے مطلب کو بھی سامنے لاتا ہے۔ فریدہ کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوا کہ یہ روح وبدن کا کوئی معرکہ ہے جو من کی دنیا کا مسافر ہے۔ اس نے ایک دنیا کو تسخیر کر لیا ہے۔ من کی شاعرہ کے لیے ڈنمارک کی ایک شاعرہ کا تحفہ۔
ڈینش شاعرات کی انوکھی شاعری پر مشتمل ایک زبردست کتاب بہت اچھی شاعرہ محقق اور ادیبہ صدف مرزا نے مجھے عطا کی جسے ’سخن کا سفر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ تصویر کائنات کے سارے رنگ بکھر بکھر گئے ہیں۔ صدر شعبہ پنجابی پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر نبیلہ رحمان اس کے ساتھ تھی۔ ان سے مل کے بہت اطمینان ہوا۔ خواتین بھی جینوئن دانشور ہوتی ہیں۔
ڈینش شاعرہ کی ایک بے مثال نظم ’’شادی‘‘ کی صرف ایک لائن دیکھئے جیسے فطرت اچانک ہی ویران باغات کو دوبارہ فتح کرتی ہے۔
میں یہ لائن فریدہ خانم کی نذر کرتا ہوں۔ فرح ہاشمی بھی یقیناً یہ شاعری پڑھے گی۔ وہ اپنے شوہر عدیل کو بھی پڑھائے اور جیل کے قیدی بچوں کو بھی سنائے۔ فرح اور عدیل نے قیدی بچوں کے لیے بہت متحرک تنظیم ’’رہائی‘‘ بنائی ہے جو اپنے نام کے اندر ہی سارا منشور رکھتی ہے۔ انہوں نے ان تھک کام کیا ہے اور کئی بچوں کو رہائی دلوائی ہے۔ میں نے بھی ان دونوں کے ساتھ کیمپ جیل کا کئی بار وزٹ کیا ہے۔
فرح کے ساتھ ’’دن‘‘ اخبار میں اکٹھے کام کیا ہے۔ اب قیدی بچوں کی تنظیم ’’رہائی‘‘ کے لیے بنیاد رکھی ہے۔ اس سلسلے میں فرح کے شوہر عدیل کی مکمل معاونت شامل حال ہے۔ ابھی مختلف شہروں کی کچھ جیلوں میں وہ کام کر رہے ہیں مزید جیلوں میں بھی بھلائی کا یہ کام ہو سکتا ہے مگر وہ حکومت کے طرف سے تعاون کے منتظر ہیں۔ یہ ایک عظیم تر فلاحی کام ہے۔ اس ضمن میں متعلقہ لوگ توجہ کریں۔
آخر میں مَن کی شاعرہ فریدہ خانم کے کچھ اشعار دیکھئے۔
خوشبوئیں ہی لائی ہوں
اس سے مل کر آئی ہوں
پور پور مہکی ہے
روح میں سمائی ہوں
وہ بنا قلم اور میں
اس کی روشنائی ہوں
ہر طرف ہوا چرچا
آسماں پہ چھائی ہوں
وہ مرا بھرم خانم
اُس کی پارسائی ہوں