اسلام آباد( وقائع نگار خصوصی/نمائندہ خصوصی/نامہ نگار) پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی حکومت کے یکطرفہ اقدام کو یکسر مسترد کردیا ہے اور مقبوضہ کشمیر سے متعلق370 اور35 اے کوختم کرنے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی قرار دے دیا پارلیمنٹ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جمہوری عمل کے ذریعے حق خودارادیت کے تحت کشمیریوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ او آئی سی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ قرار داد میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر پر عالمی ضابطوں کی موجودگی میں کوئی ملک یکطرفہ طورپر متنازع حیثیت کو ختم نہیںکرسکتا، پاکستان بھارت اور کشمیری اس تنازعہ کے تین فریق ہیں ، تینوں فریقوں کی مشاورت سے اس کا پرامن حل نکلنا ہے، یہ بات پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ طورپر منظور کر دہ قرارداد میں کہی گئی ہے جو تمام پارلیمانی جماعتوں کی مشاورت سے تیار کی گئی، قرار داد پر تمام پارلیمانی رہنمائوں نے دستخط کئے ہیں۔ یہ قرارداد گزشتہ شام چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی سید فخر امام نے پیش کی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں بحث جاری رہی پارلیمنٹ کے اجلاس کی صدارت سپیکر اسد قیصر نے کی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں کی قیادت موجود تھی مشترکہ قرار داد میں کہا گیا ہے پاکستان کے عوام کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو بند کیا جائے، تمام رابطے بحال کیے جائیں، سرچ آپریشن ختم اور کشمیری رہنمائوں کو رہا کیا جائے، شہری آزادیوں کا احترام کیا جائے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی سے جنوبی ایشیاء کا امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اضافی دستوں کی تعیناتی پر اظہارتشویش کرتے ہیں، انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی جارہی ہے، اقوام متحدہ خصوصی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرائے۔ مقبوضہ کشمیر سے تمام بھارتی سیاہ قوانین منسوخ کیے جائیں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارت کا کوئی بھی اقدام کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور نہیںکرسکتا۔ قرارداد میں واضح کیا گیا ہے کہ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کے امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں سے روگردانی کی گئی ہے۔ پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت اور دہشت گردی کی مذمت کی اور کہا کہ یہ ایوان لائن آف کنٹرول پر کلسٹر بم حملے کی سخت مذمت کرتا ہے۔ بھارت متازع علاقے کے بارے میں یکطرفہ طورپر کوئی قانون سازی نہیںکرسکتا، پارلیمنٹ نے آبادیاتی حیثیت کوتبدیل کرنے کی بھارتی کوششوں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے بھارت نے یہ اقدام مقبوضہ کشمیر کی عوام کو ہر قسم کے حقوق سے محروم کرنے کیلئے اٹھایا ہے جس کی کوئی عالمی قانون اجازت نہیں دیتا۔ آبادیاتی تبدیلی جنگی جرم ہے ، نسل کشی کے ذریعے جنیوا کنونشن کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں اور امن و سلامتی کودائو پر لگا دیا گیا ہے۔ حق خودارادیت کا عالمی قراردادوں کے ذریعے تحفظ کیا گیا ہے جس کے مطابق کشمیریوں سے آزادانہ رائے کے ذریعے ان کے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد مزید افواج کی تعیناتی پر پارلیمان اظہار تشویش کرتا ہے، کرفیو کی مذمت کرتا ہے،کشمیری لیڈروں کی گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے انٹرنیٹ سمیت تمام رابطے منقطع کیے جانے پر پارلیمنٹ نے اظہار تشویش اور مذمت کی ہے۔ سیز فائر کی خلاف ورزی کی مذمت کرتے ہوئے کلسٹر بم میں بچوںکی شہادت پر پارلیمنٹ نے اظہار تشویش کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ پاکستان کے عوام اور فوج کسی بھی ممکنہ بھارتی مہم جوئی کے حوالے سے چوکس ہیں۔ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی ، اخلاقی ، سفارتی حمایت جاری رکھے گا، کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، قرارداد میں مطالبات کئے گئے ہیں کہ کشمیریوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بند کیا جائے ، جبری طورپر شہریوں کو اٹھائے جانے کو روکا جائے، تمام رابطے بحال کیے جائیں، سرچ آپریشن بند کیاجائے، شہری آزادیوں کا احترام کیا جائے اوربھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کرے بصورت دیگر جنوبی ایشیاء کی امن و سلامتی کو خطرہ لاحق رہے گا۔ قرار داد میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی مذمت کی گئی اور اقوام متحدہ سے خصوصی کمیشن مقبوضہ کشمیر بھجوانے کا مطالبہ کیا ۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیرسے تمام سیاہ بھارتی قوانین بشمول پبلک سیفٹی ایکٹ منسوخ کیا جائے، او ائٓی سی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے حالیہ اقدامات خطے میں امن کے لئے سنجیدہ خطرہ ہیں۔ انسانی حقوق کونسل پر قرارداد میں زور دیا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں دو کالے قوانین کے تحت بھارتی ظلم و بربریت کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اس کا تذکرہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی جانب سے بھی اپنی حالیہ رپورٹس میں کیا گیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ڈیموگرافی کی تبدیلی اور جموں کشمیر کے عوام کی شہریت کے حق‘ مستقل سکونت‘ جائیداد کی خریداری‘ روزگار اور تعلیم جو انہیں 35 اے کے تحت حاصل تھا اس شق کا خاتمہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے متصادم ہے اور یہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ قرارداد کو انتہائی بلند آواز میں ارکان پارلیمنٹ نے متفقہ طورپر منظور کرلیا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ’’کشمیر بنے گاپاکستان‘‘ کے نعرے لگوا دئیے۔ انہوں نے کہاکہ 14اگست کو جگہ جگہ اس کا اظہار ہوگا۔ انہوں نے بحث سمیٹتے ہوئے کشمیر بنے گا پاکستان کانعرہ لگوایا جس کا ارکان پارلیمنٹ نے بھرپور انداز میں جواب دیا۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق قرارداد میں کہا گیا بھارت کشمیریوں پر بدترین مظالم بند‘ عالمی معاہدوں‘ باہمی وعدوں کی پابندی کرے۔ نئی دہلی مقبوضہ کشمیر کا آبادیاتی ڈھانچہ تبدیل کرنے سے بھی باز رہے۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+نمائندہ خصوصی+نامہ نگار+ نمائندہ نوائے وقت) سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد ہی کشمیر پر رکھی گئی تھی‘ کشمیریوں اور بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو دو قومی نظریہ کی سمجھ آگئی ہوگی‘ موجودہ صورتحال کا تقاضا تھا کہ متحدہ عرب امارات‘ چین‘ روس اور ایران کا لیڈر شپ دورہ کرتی اور ان سے اس صورتحال پر حمایت حاصل کرتی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ کشمیر کا موجودہ سانحہ مشرقی پاکستان سے بھی بڑا ہے۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد کشمیر پر رکھی گئی تھی۔ذوالفقار علی بھٹو نے مذاکرات کے ذریعے 90 ہزار قیدی واپس لائے‘ آج کشمیر کا آدھا حصہ ٹوٹ چکا ہے۔ کشمیری اور بھارت کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ قائداعظم کا دو قومی نظریہ کیسا تھا‘ ہمیں دوراندیش سوچ چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اندرا گاندھی کو یہ انٹیلی جنس اطلاعات تھیں کہ بھٹو پر دبائو ہے وہ صرف فوج واپس مانگے گا۔ جب اندرا نے بھٹو سے کہا کہ آپ قیدی لیں گے یا زمین لیں گے تو بھٹو نے کہا کہ ہمیں زمین واپس کریں اور پھر قیدی بھی واپس آئے اور زمین بھی ملی۔ گولان کی پہاڑیاں آج تک واپس نہیں ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ بنگالیوں اور سندھیوں نے پاکستان بنایا۔ ہم نے اس لئے پاکستان بنایا کہ سب مسلمان اس میں رہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے آپ کا چہرہ دیکھ کر دوسروں سے بات کر رہا ہے۔ ہم حکومت پر تنقید نہیں کرتے یہ دن کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا ہے۔ کشمیریوں تک یہ باتیں جارہی ہیں۔ سب کشمیریوں سے ملا ہوں وہ بہت باخبر ہوں گے۔ ہمارے دور میں یہ کام ہوتا تو پھر یو اے ای‘ چین‘ روس اور ایران جاتا اور ان کا تعاون حاصل کرتا۔ میں پہلا صدر تھا جو 24 سال بعد روس گیا۔ میں نے چین کے 13 سے زائد دورے کئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے دوستوں کو پھر ساتھ ملانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کشمیریوں پر فخر ہے جنہوں نے برطانوی پارلیمان میں کشمیریوں کی حمایت میں قرارداد پیش کی ہے۔ ہمیں ان کشمیریوں پر فخر ہے جو کشمیر میں اپنی جانیں دے رہے ہیں وہ پاکستان کے پرچم میں لپٹ کر دفن ہونا پسند کرتے ہیں۔ کشمیر میں کوئی گھر ایسا نہیں جہاں کوئی شہید نہ ہو۔ اس کے باوجود وہ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی کی سوچ سے بھارت رسوا ہوگا۔ گاندھی کی سیکولر سوچ انہوں نے دفن کردی۔ تاریخ یہ یاد رکھے گی کہ میں نے یہ باتیں کی تھیں۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ تاریخ میں مودی نے ایسا فیصلہ کیا ہے جو کشمیریوں کے لئے نیا شعلہ جوالہ بنے گا۔ میں کشمیر کو اندر سے جانتا ہوں اب کشمیری گھر میں نہیں بیٹھے گا۔ بی جے پی نے ایک مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا یہ تاریخ کا سانحہ ہے۔ 303 ممبران میں ایک مسلمان نہیں ہے۔ یہ تحریک اب یو پی اور سی پی کی طرف جائے گی۔ یہ سب مسلمان ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ اسرائیل کا پیٹرن لایا ہے اگلے تین سے چھ ماہ میں سرحدوں پر امن نہیں دیکھ رہا ہوں۔ بھارت کی طرف سے 371 دیگر جگہوں میں بھی لگا ہے وہاں پر کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔ سری نگر کا جغرافیہ ایسا ہے۔ چین کی دور اندیشی کو سلام پیش کرتے ہیں۔ عنقریب آرمی چیف چین جائیں گے۔ مودی نے آج تمام راستے بند کرکے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ ہندومت ہے۔ مودی کو امریکہ ویزہ نہیں دیتا تھا اب وہ ان کی آنکھ کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب کنٹرول لائن ختم‘ شملہ معاہدہ ختم‘ مفتی آزاد کا نظریہ ختم ہوگیا ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ بھارت اب آزاد کشمیر پر حملہ کر سکتا ہے۔ وہ آر ایس ایس کی تھیوری پر عملدرآمد کرے گا۔ ہمیں متحد ہونا چاہیے۔ پاکستان بھارت میں کشمیر کا مسئلہ اب حل ہونے جارہا ہے۔ بھارت کے مسلمان کیڑے مکوڑے کی طرح زندگی گزارنا ترک کردیں۔ تحریک انصاف کے رکن ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں پر مشتمل وفود بنا کر دنیا کے مختلف ممالک میں بھیجے جائیں جو کشمیر کی موجودہ صورتحال پر عالمی برادری کو آگاہ کریں‘ بھارت نے کشمیر میں اپنے آئین کا قتل عام کیا یہ جمہوریت کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ہماری شہ رگ دشمن کے ہاتھ میں ہے‘ ان حالات میں مسئلہ کشمیر جیسے گھمبیر مسئلے پر پوری قوم کو متحد ہوکر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہوگا‘ اس نازک موڑ پر ہمیں ہر قسم کی تقسیم سے بالاتر ہو کر قومی مسئلہ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا‘ پاکستان کی معاشی بدحالی کا حل نکالے بغیر عالمی سطح پر کوئی ہماری مدد کو آگے نہیں بڑھے گا۔ بدھ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے خواجہ محمد آصف نے کہا کہ گزشتہ روز وزیراعظم نے بہت سے تاریخی حوالے دیئے‘ تاریخ میں سب سے اہم بات ہوتی ہے کہ اس سے کوئی سبق لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی اقدام تاریخ کی ایک بڑی ٹریجڈی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے بھارت کی طرف سے ہماری کسی پیشکش کا کوئی جواب نہیں آیا۔ مودی سے یہ توقع وابستہ کی گئی کہ وہ منتخب ہوکر مسئلہ کشمیر کا حل دے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب اسلامی کانفرنس کے اعلامیہ میں جب کشمیر کا ذکر نہیں آیا تو ہمیں سمجھ جانا چاہیے تھا کہ اسلامی ممالک ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ ہمیں اپنی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہیے تھا۔ یو اے ای کی طرف سے گزشتہ روز جو بیان آیا اس سے ظاہر ہے کہ وہ ہماری مدد یا حمایت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بھارت کے حالیہ اقدامات کے حوالے سے تمام اشارے پہلے سے موجود تھے۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس چار گھنٹے تک معطل رہا جس سے تقسیم کا تاثر ملا۔ ایسے مواقع پر ہمیں یکجا ہوکر موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی نے گجرات میں 2200 مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس بھارت کو ہندو ریاست بنانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے پہلے الیکشن کے وقت کہا تھا کہ افغانستان کے مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ افغانستان میں امن کا ہر پاکستانی خواہاں ہے مگر افغانستان میں ہم امریکہ کے لئے کیا کرنے جارہے ہیں‘ اس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے۔ ہم نے یمن کے مسئلے پر نہ صرف پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا بلکہ اس قرارداد پر عملدرآمد کرایا۔ ہم عالم اسلام میں تنہا ہو چکے ہیں۔ جس طرح فلسطینی عالمی تنہائی کا شکار ہیں اس طرح کشمیری بھی تنہا ہوتے جارہے ہیں۔ کشمیریوں کی جائیدادیں چھینی جائیں گی جو ملک معاشی طور پر کمزور ہو جائے اس کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ ہم معاشی طور پر واقعی بہت کمزور ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو ایل او سی کے اس طرف دھکیلا جائے گا۔ اس انتہائی نازک موڑ پر قوم تقسیم ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اس بات کا متقاضی ہے کہ قوم متحد ہو کر اس جارحیت کا مقابلہ کرے۔ یہ انتہائی گھمبیر مسئلہ ہے۔ ہماری شہ رگ دشمن کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت کی طرف سے قوم کو متحد کرنے کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے۔ اس کے لئے طویل المدتی منصوبہ بندی درکار ہوگی۔ تمام مضمرات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہوکر آگے بڑھنا ہوگا۔ پارلیمنٹ قوم کی خواہشات کا مظہر ہے۔ یہاں سے پیغام جانا چاہیے کہ ہم قوم کو لیڈ کر رہے ہیں۔ صرف قرارداد سے کام نہیں بنے گا۔ اس کو ایک قومی مسئلہ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ سیاسی بدحالی کا حل نکالے بغیر کوئی ہماری مدد کو آگے نہیں بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی کانفرنس کے اعلامیہ میں جب کشمیر کا ذکر نہیں آتا تو ہمیں سمجھ جانا چاہئے تھا کہ اسلامی ممالک ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ ہمیں اپنی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہئے تھا۔ کشمیر کا مسئلہ اس بات کا متقاضی ہے کہ قوم متحد ہوکر اس میں جارحیت کا مقابلہ کرے۔ یہ انتہائی گھمبیر مسئلہ ہے۔ جے یو آئی (ف) کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے ہمیں عالمی برادری کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ اگر امریکا افغانستان کو طاقت کے ذریعے دبا نہیں سکا تو بھارت بھی ایسا نہیں کر سکے گا‘ ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں مگر امریکا کو چاہیے کہ وہ بھارت کو کشمیر سے پیچھے دھکیلنے کے لئے فوری اقدامات اٹھائے۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ پوری دنیا کا امن کشمیر کے امن کے ساتھ وابستہ ہے‘ حکومت اسلام آباد میں بین الاقوامی کانفرنس طلب کرے اور ارکان پارلیمنٹ کے وفود بنا کر ساری دنیا میں روانہ کئے جائیں‘ ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا‘ اگر یہ موقع ہم نے ضائع کردیا تو پھر یہ وقت کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر اجلاس طلب کرنا اچھا اقدام ہے۔ وزیراعظم نے گزشتہ روز یہ پوچھا کہ مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں۔ اپوزیشن کے تمام رہنمائوں نے بڑے درد دل کے ساتھ یہ کہا کہ کشمیر کی آزادی کے لئے سب نے کہا کہ وزیراعظم قدم بڑھائیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ کیونکہ قدم بڑھانا آپ کا کام ہے پوری قوم کا کام آپ کا ساتھ دینا ہے۔کشمیر کے امن کے ساتھ پوری دنیا کا امن وابستہ ہے۔ سید علی گیلانی کی جدوجہد اور قربانیاں نیلسن منیڈیلا سے زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ الہ کا حکم ہے مظلوم اور بے بس لوگوں کیلئے لڑو۔ مظلوم کشمیریوں ے بچے پکار رے ہیں کہ انیں ظالموں کے تسلط سے نجات دلائی جائے۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان جسے پاکستان کی شہ رگ اور سر کا تاج کہتے رہے اس پر بھارت قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ نہوں نے کہا کہ میں خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ آج اگر ہم نے مقبوضہ کشمیر کو بچانے کے لئے کردار ادا نہ کیا تو ان کا اگلا اقدام گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کا ہوگا۔ کشمیر کے تمام دریائوں کا رخ ہماری طرف ہے۔ ہمیں ایک قطرہ پانی نہیں ملے گا۔ پاکستان صحرا بن جائے گا۔ لندن اور جنیوا میں کشمیر ڈیسک بند نہیں کئے جانے چاہیں تھے۔ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی جنیوا کنونشن کے تحت ایک جنگی جرم بنتا ہے‘ عالم اسلام کو مسلمانوں پر تشدد کے مسئلے پر خاموش نہیں رہنا چاہیے‘ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے اس حالیہ اقدام پر عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ بھارت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وزیراعظم نے گزشتہ روز بھی ذکر کیا کہ کس نظریہ کے تحت نریندر مودی کی حکومت نے وہ اقدامات اٹھائے ہیں۔ وہ ممالک جو انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور اپنے آئین کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں۔ بھارت نے کشمیر پر کلسٹر بم گرائے ہیں۔ بھارتی حکومت بدمعاشی پر اتر آئی ہے۔ بھارت نے سب سے پہلے باب چھ کے تحت کشمیر کو متنازعہ مسئلہ تسلیم کیا اور اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک عالمی تنازعہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کی کونسل ایک خودمختار کمیٹی قائم کرے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیو کی تحقیقات کرے۔سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے لئے بھارت پوری تیاری سے آگے بڑھا ہے‘ ہمیں اس پر عالمی عدالت انصاف میں جانے کی صورت میں تمام امور پر مشاورت اور غور و فکر کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا ۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی اور سانحہ وقوع پذیر ہوجائے،کشمیر میں بیماروں اور زخمیوںکے لئے ہمیں عالمی تنظیموں سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ وفاقی وزیر فواد چودھری نے بھارت سے سفارتی تعلقات منقطع کرن کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے کہا ہمیں بھارت سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا اپنی سیاست کے پیچھے لاشوں کی بے حرمتی نہیں ہونی چاہئے۔ جب بھارت ہم سے بات کرنے کو ہی تیار نہیں تو ہمارا سفیر وہاں کیا کر رہاہے؟ یہ تاثر نہ جائے کہ ہم لڑے سے بھاگ رہے ہیں۔ لڑائی ہوئی تو قوم کا بچہ بچہ فوج کے شانہ بشانہ لڑے گا۔ وزیراعظم نے پوچھا تھا بتائیں کی کروں تو بلاول اور شہبازشریف کو کھڑے ہو جانا چاہئے تھا۔ قدم بڑھائو عمران خان ہم تمہارے ساتھ ہیں۔وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے‘ کشمیری پاکستان کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں‘ ہم انہیں یہ واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی جدوجہد آزادی میں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں‘ وزیراعظم عمران خان اور دفاعی قیادت نے بھارت کے اقدام پر بھرپور جواب دیاہے‘ کشمیریوں کی ظلم و تشدد کے باوجود جدوجہد آزادی پر انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ بھارت ایک طرف کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے رہا ہے اور دوسری طرف وہ اپنے اقدامات سے اسے ریزہ ریزہ کر رہا ہے‘ پوری حریت قیادت کو نظربند کیا ہوا ہے‘ کشمیر پر پورا پاکستان متحد ہے‘ ہم اپنی سرحدوں کی محافظ افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔انہو ںنے کہا کہ نوازشریف کیوں گرفتار اور مریم نواز کا میڈیا پر بلیک آئوٹ کیوں کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے 1972کے شملہ معاہدے پر کاری ضرب لگائی ہے، معاہدے کی روح کو نقصان پہنچایا ہے کشمیر کی موجودہ صورتحال پر چین سمیت تمام دوست ممالک سے مشاورت کی جارہی ہے، فوری طور پر چین جا کر مزید مشاورت کریں گے، میں شاید جلد بیجنگ چلاجائوں۔ 14اگست کو ساری قوم کشمیریوں کیساتھ یکجہتی کے طور پر منائے گی، ایک آواز اٹھے گی، کشمیر بنے گا پاکستان۔ بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منائے گی، مودی سرکار نے مسئلہ کشمیر پہلے سے زیادہ پیچیدہ کردیا ہے، بھارت ہمیشہ سفارتی سطح پر کشمیر کا مسئلہ دبانے کی کوشش کرتا رہا ہے، دنیا کی نظر سے مسئلہ اوجھل ہوجائے، بھارت کی حرکت نے مسئلہ کو پھر عالمی سطح پر اجاگر کردیا ہے، ساری دنیا میں اس پر بات ہورہی ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے مسئلہ پر پالیسی بیان دے رہے تھے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا سابق بھارتی وزیر خارجہ پی چدمبرم نے کہا کہ تاریخ بتائے گی بھارت کا فیصلہ ایک حماقت تھی، بھارت نے اپنے وفاق پر ضرب لگائی ہے، ماضی میںایک طبقہ کشمیر بنے گا پاکستان اور دوسرا طبقہ بھارت کے ساتھ الحاق کی بات کرتا تھا، مودی کے فیصلے نے سب کشمیریوں کو یکجا کردیا۔ وفاقی وزیر برائے مواصلات اور پوسٹل سروسز مراد سعید نے کہاکہ بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے اپنی موت کے پروانے پر خود دستخط کر دیئے ہیں۔ کشمیری ہمارے بھائی اور کشمیر ہمارا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک اخباری تراشے کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جس کی اس بیان کے اگلے ہی روز تردید کر دی گئی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کے آنے کے بعد ایک کام ہوا ہے کہ بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے۔ بھارت پاکستان کی امن کی پالیسی سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ دوسرا بڑا واقعہ ہے،انہوں نے کہا کہ بھارت کی تقسیم اور بربادی کا آغاز ہو چکا ہے اور کشمیر آزاد ہو کر رہے گا۔پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ جس طرح ہمارے قائدآصف علی زرداری نے کہا کہ بھارت کی طرف سے مشرقی پاکستان کے سانحے سے برا قدم اٹھایا گیا ہے ،ہماری سرحدیں مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ملتی ہیں ہمارا بچہ بچہ کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا ہے ،وزیر بین الصوبائی رابطے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہاکہ دنیا بھر میں پاکستان کے سفارتی مشنزکواپنے ممالک میں لابنگ کیلیے گائیڈلائنزدی جائیں،خدانخواستہ جنگ ہوئی تو بچہ بچہ فوج کے پیچھے کھڑا ہوگا، بھارت سے تجارتی ، سفارتی تعلقات ختم کرناپڑیں تو غور کی ضرورت ہے،مودی کا اقدام بھارتی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے، محض صدارتی حکم نامے سے بھارت کشمیر کا جغرافیہ تبدیل نہیں کرسکتا۔ پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینٹ سینیٹر میاں رضا ربانی وزیراعظم کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال پرردعمل ترتیب دینے کیلئے بنائی گئی کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کمیٹی کا فیصلہ قبول نہیں ہوگا، حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل پارلیمنٹ کی کمیٹی بنائی جائے، پاکستان کے مفاد میں آزاد خارجہ پالیسی بنانی ہوگی، 1947 سے آج تک خارجہ پالیسی سے پارلیمنٹ کو الگ رکھا گیا ہے، اس وقت امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا مشترکہ اتحاد ہے، کیا ہم بھول گئے جب ٹرمپ نے فلسطین کے معاملے پر مذاکرات کئے تو فلسطین کا دارالحکومت اسرائیل کو دے دیا، ہمیں پاکستان کی ترجیحی پالیسی بنانا ہو گی، اس کیلئے ٹرمپ کی ثالثی اور بھارت کی تھانیداری مسترد کرنا ہو گی۔