اٹھارہویں صدی برصغیرمیں سازشوں اور غداریوں کی تاریخ سے بھری پڑی ہے ۔مغل سلطنت کا سورج جب غروب ہورہا تھاتو کئی اہل علم دربدر ہوگئے۔ان میں ایک ثناء اللہ خراباتی بھی تھے۔کشمیر کے رہائشی اور فارسی زبان کے بڑے عالم تھے۔تصوف ان کی فکر کامحورتھااور اس موضوع پر ایک دونہیں سوکے لگ بھگ کتابیں لکھیں۔ان کاتعلق سلسلہ سہروردیہ سے بیان کیا جاتا ہے ۔آپ کوئی انسائیکلوپیڈیا یا لغت وغیرہ اٹھا کردیکھ لیں کہیں بھی ان کانام نہیں ملے گا۔صرف جلال پور جٹاں کے میر عارف یاایسے ہی چند مقامی اہل علم ہوں گے جو ان کی شخصیت کااحاطہ کرسکیں۔پورے ملک میں ان کی کوئی کتاب
آپ تلاش کرنے نکلیںتو بھی ناکامی ہوگی۔بڑی سے بڑی دکان یامعروف لائبریریوں میںبھی دستیاب نہیں ہوگی۔
ہاں البتہ ایران میں تقریبا ہربک شاپ پر ان کی کتب وافرمقدار میں ہوں گی۔ایرانی ان کی فارسی پڑھ کرلطف اندوزہوتے ہیں ۔اقبال کے بعد برصغیر کے جن فارسی زبان کے لکھاریوں کاایران میں اب بھی چلن ہے ثناء اللہ خراباتی کاشمار ان میں ہوتا ہے۔انہوں نے نظم وغزل کی بجائے نثرکو ذریعہ اظہار بنایا اور کمال تک پہنچے۔یہ ساری معلومات اچانک ہی مجھے اس طرح سے ملیں کہ میں گجرات سے10میل کے فاصلے پر واقع علاقہ جلال پورجٹاں کے بارے میں لکھناچاہ رہاتھا۔
یہاں کی دوتین شخصیات ادب وفن کے لحاظ سے بڑی نامورہوگذری ہیں جنہیں وقت کی سفاکیت نے دھندلاکر دیا۔میراخیال تھا معروف دانشورسید علی عباس جلال پوری کا تعلق بھی شائد جلال پورجٹاں سے ہے مگر وہ جہلم کے علاقے جلال پورسیداں سے تھے ۔ہمارے دوست چوہدری انور کمبوہ ایڈووکیٹ نے راہنمائی کی کہ میر عارف نام کے ایک صاحب جلال پورجٹاں میں رہائش رکھتے ہیں ،ان سے معلومات مل جائیں گی ۔اب علی عباس جلال پوری کی بجائے ذکرجو ثناء اللہ خراباتی کاچلا تو دیر تک رکانہیں ۔خوشی اس بات کی زیادہ ہوئی کہ اسی بہانے ایک نابغہ روز گار اورایک گم گشتہ صوفی کی بابت کچھ معلومات مل گئیں۔
ایک بار گوجرانوالہ کہ پرانے پہلوانوں میں بیٹھنے کاموقع ملا،اپنے شہر کے عظیم پہلوان رستم ہند"رحیم بخش سلطانی والا"کی باتیں ہورہی تھیں۔میں تو انہیں نہیں دیکھ سکا ہماری عمر سے بہت ہی پہلے کے واقعات تھے۔معلوم ہواکہ اتنا بڑا پہلوان ایک بار جلال پورجٹاں کے پہلوان غلام قادر جلالپوری سے شکست کھاکرچت ہوچکا ہے۔غلام قادر کے بارے میں کہاجاتا تھا کہ اس نے فن پہلوانی میں بہت سے ایسے نئے دائو بھی دریافت کئے اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیئے جن کی آرزورستم زماں گاما کے دل میںہمیشہ رہی ۔
غلام قادرنے صرف سترہ سال کی عمر میں پورے ہندوستان میں دھوم مچادی ۔ایک ایسا واقع اس کے نام سے منسوب ہے جو آج تک فن پہلوانی اور اسکے شیدائیوں کے لئے ان کی وفات کے ایک صدی بعد بھی ایک معمہ ہے ہوایوںکہ ایک بارغلام قادرپہلوان اورگونگا پہلوان سیالکوٹی کے درمیان مقابلہ ہوا۔ اس وقت غلام قادر پچاس سال کی عمر کے پیٹے میں تھااور گونگا ایک نوجوان ،چڑھتاسورج اور بے پناہ طاقتور پہلوان تھا۔کشتی کافی دیر زورشور سے جاری رہی کہ اچانک گونگا کے والد نے نہ جانے اپنے بیٹے کو کیا اشارہ کیا کہ وہ کشتی چھوڑ کر میدان سے باہر آگیااور اس نے غلام قادرجلال پوری کی کامیابی کا اعلان کردیا۔غلام قادر کے بعد پھر جلال پورجٹاں توکیاگجرات سے بھی کوئی پہلوان نام نہ کماسکابلکہ فن پہلوانی نے اپنا رخ کچھ سیالکوٹ اور زیادہ ترگوجرانوالہ کی طرف موڑلیا۔اب جلال پورجٹاں کے اکھاڑے ویران ہوچکے ہوں گے بلکہ مجھے تو یقین ہے کہ کوئی اب کوئی اکھاڑہ سرے سے وہاں موجود ہی نہیں ہوگاجلال پورجٹاں کی ایک اور بڑی ادبی شخصیت اور فلمی شاعر البتہ نامعلوم یا گم گشتہ نہیں رہ سکے ۔وہ تھے ہندوستانی فلم انڈسٹری کے اولین شعراء میں سے ایک "راجندرکرشن"وہ جلال پور جٹاں میں پیداہوئے اورشملہ میں نوکری کرتے کرتے بمبئی کی فلم انڈسٹری میں پہنچ گئے ۔
1987ء کے لگ بھگ یہ دنیا چھوڑ گئے۔ان کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں لکھوں گا کہ ان کے کچھ نغمات کے بارے میں بھی آپ کو کچھ بتانا ہے۔سب سے دلفریب گیت اور اعلی معیار کی شاعری پر یہ نغمہ کسے یاد نہیں۔۔۔نہ تم بے وفاہو نہ ہم بے وفاہیں/مگر کیاکریں اپنی راہیں جدا ہیں۔۔۔اس کے علاوہ ۔۔۔رنگ دل کی دھڑکن بھی لاتی توہوگی۔۔۔پل پل دل کے پاس تم رہتی ہو۔ من ڈولے میراتن ڈولے ،میرے دل کا گیا قرار رے۔۔۔۔چل اڑجا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوابیگانہ کے علاوہ جس گیت نے برصغیر میں انمٹ نقوش چھوڑے وہ تھا۔۔۔۔ یہ زندگی اسی کی ہے جوکسی کاہوگیا۔۔۔۔جلال پور جٹاں کے مردم خیز قصبے میں ایسے ایسے نایاب صوفی ،پہلوان اور شاعر پیداہوئے ہوں گے شائد کسی کو معلوم نہ ہو۔ بڑے کمیاب ونایاب اور اپنے شہروں کے ماتھے کاجھومر ہوتے ہیں یہ لوگ۔پتہ نہیں جلال پورجٹاں میں انہیں اب کوئی جانتا بھی ہے کہ نہیں ۔راجندر کرشن تو واپس پاکستان نہ آئے ۔نہ جانے ثناء اللہ خراباتی کہاں دفن ہوں گے اور غلام قادرپہلوان جلالپوریا کے اکھاڑے پر کسی نے قبضہ کرکے پلازہ بنالیاہوگا۔
جلال پورجٹاں کے گم گشتہ چہرے
Aug 08, 2020