دونوں ممالک کی متحارب سوچ کے سبب تصادم کی منطق سمجھنا بہت آسان ہے جیسا کہDiehl Post میں شائع ہونے والی اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے: ’’ اسرائیل ایسی کارروائیوں کا مرتکب ہورہا ہے جن کا مقصد پراسرار طریقے سے ایران کے ایٹمی ومیزائل پروگراموں اور دیگر صنعتی اور بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانا ہے۔ سینیٹری فیوج کی پیداواری سہولتوں‘ میزائل تیار کرنے والے فوجی ٹھکانوں‘ پاور پلانٹس ‘ کیمیکل فیکٹریوں اور ایک میڈیکل کلینک پر پراسرار دھماکے ہوئے۔گُذشتہ ہفتے خلیج فارس میں واقع ’’بوشہر‘‘ کی بندرگاہ میں بھڑک اٹھنے والی آگ سے سات بحری جہاز تباہ ہوگئے تھے۔ اسرائیلیوں نے اپنے آپ کو ان کاروائیوں سے بری الذمہ ثابت کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایاہے۔‘‘
ایسا لگتا ہے کہ ایسے ہتھکنڈوں کے ذریعے اسرائیل اسی سال فروری میں اعلان کی جانے والی یہ وارننگ ‘جو امن کا پیغام بھی ہے‘اسے نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہا ہے: ’’عنقریب اسرائیل کو ایک نئی قسم کی جنگ کا سامنا ہوگا جس کے خلاف اس کے پاس کوئی دفاعی صلاحیت نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں یہ جنگ متعدد اطراف سے ہزاروں کی تعداد میں فری فلائٹ راکٹوں ‘ میزائلوں اور ڈرونز کے حملوں سے شروع ہوگی جو اسرائیل کے ائر ڈوم ڈیفنس سسٹم کے ساتھ ساتھ عوام کے حوصلوںکو بھی تباہ کردیگی۔ اس کے بعد دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑیاں مختلف اطراف سے دفاعی حصاروں کو توڑدیں گی جس سے بڑی تعداد میں خودکش بمبار اسرائیل کے اندر گھس کر تباہی مچا دیں گے‘ جس سے دشمن کے دل و دماغ دہل جائیں گے‘ حوصلے پست ہو جائیں گے۔‘‘۔ ’’اس وارننگ کے بہتر نتائج برآمد ہوئے اور اسرائیل کی قیادت نے جارحیت کے لئے تیار فوجیں پیچھے ہٹا لی تھیں۔جبکہ اسی طرح کے خطرے سے 2006 میںاسرائیل کو جنگ سے قبل حزب اللہ کے فری فلائٹ راکٹوں کے خطرے سے آگاہ کر دیا گیا تھا لیکن اس نے پرواہ نہ کی اور ایک شرمناک شکست سے دوچار ہوا۔‘‘
مودی نے فروری2019 کی ناکام سرجیکل اسٹرائیک کے بعد کہا تھا کہ’’ کاش میرے پاس رافیل طیارے ہوتے تو میں بدلہ لیتا۔‘‘ اسی سوچ کے تحت بھارت نے فرانس سے رافیل طیارے خریدے ہیں اور اعلان کیا ہے کہ: ’’اگر ہماری اس نئی صلاحیت سے کسی کو خطرہ ہے تووہ ہیں جو ہماری سرحدی سا لمیت کے لئے خود خطرے کا باعث بنے رہے ہیں۔ان کے خلاف اب ہم ہر طرح سے تیار ہیں‘‘
اب مودی کے پاس یہ ہتھیار تو موجود ہے لیکن بدقسمتی سے انہیںبڑی مشکل کا سامنا ہے کیونکہ بھارت اس وقت اپنی مسلح افواج کی اندرونی کمزوریوں کے مسائل سے دوچار ہے اور ان میں اتنی سکت نہیں کہ مودی کے عزائم کو کندھا دے سکیں‘ مثلا:
۱۔بھارت اپنی مسلح افواج کی تنظیم نو میں مصروف ہے جس کی وجہ سے وہ عملی طور پر کسی بڑی عسکری کارروائی کے قابل نہیںہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اپنی مسلح افواج کی تنظیم نو 1980-90کے عرصے میں مکمل کر چکا ہے اور اس کے تمام جنگی منصوبے فوجی مشقوں میں باقائدہ طور پر چانچے اور پرکھے جا چکے ہیں۔
۲۔پاکستان نے اپنا اہم جنگی ٹینک ‘بحری جہاز‘ سب میرین اور کثیرالجہتی کردار کے حامل فضائی طیارے خود تیارکرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے جبکہ بھارت کو یہ صلاحیت حاصل نہیں ہے۔ رافیل طیارے جو انہوں نے حالیہ عرصے میں اپنی فضائیہ میں شامل کئے ہیں۔ان کے مقابلے میں چین کے J-20طیارے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
۳۔بھارتی پائلٹوں کو رافیل طیاروں کی جنگی مہارت حاصل کرنے کے لئے وقت درکار ہوگا۔
۴۔بھارت کی تقریباتیس فیصد پیادہ فوج درجن بھراندرونی تحریکوں سے نمٹنے میں الجھی ہوئی ہیں جن میں کشمیر کی تحریک آزادی بھی شامل ہے جو اب منطقی انجام کے قریب ہے۔لہذاپیادہ فوج کی کمی کے باعث زمینی دفاع کمزور ہوگا اوراس کی اپنی حملہ آور فوج کو تحفظ مہیا کرنے کی صلاحیت بھی محدود ہوگی۔
۵۔کشمیری نوجوان اپنے عظیم قائد سید علی گیلانی کی قیادت میں بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ظلم کی زنجیریں ان کے خون کے شعلوں سے پگھلیں گی ‘ قراردادوں اور احتجاج سے نہیں۔ اللہ مسبب الاسباب ہے۔
۶۔بھارتی فوج کو نسلی اختلاف(Caste system) کی وجہ سے افسروں کی کمی کا سامنا ہے جو ایک بڑی کمزوری ہے۔
۷۔فروری 2019میں بالاکوٹ سرجیکل اسٹرائیک میں ناکامی اور لداخ کے محاذ پر چینی سپاہیوں کے ہاتھوں اٹھائی جانیوالی ہزیمت کے سبب بھارت کی مسلح افواج کی عزت اور وقار کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔
۸۔اپنے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے بھارت سیاسی طورپر تنہا ہو چکا ہے جو اس کی قومی سلامتی کے لئے شدید خطرہ ہے۔
پاکستان کے لئے اس سے بہتر وقت اور کیاہو سکتا ہے کہ وہ اپنی جارحانہ دفاع کی پالیسی کوعمل میں لائے‘ جس پالیسی کا مطلب ہے کہ:
’’ دشمن کی سرحدی دفاعی لائن کو توڑکر کھلا راستہ مہیا کیا جائے تاکہ ہماری حملہ آور فوج اپنے اہداف کی جانب پیش قدمی کر سکے۔اس پیش قدمی میں ہمارے الخالد ٹینک کا اہم کردار ہے جو اپنی رفتار فائر پاور‘حفاظت اورمیدان جنگ میں اپنا لوہامنوانے کے اعتبار سے کوئی ثانی نہیں رکھتا۔‘‘
الخالد- ون ٹینک کیا ہے اور کیسے بنایا گیا
ہمارے اہم جنگی ٹینک الخالد۔1 نے17 اگست 1988کوامریکہ کے مایہ ناز ٹینک Abraham M1A1کو عملی میدان میںشکست دے کر اپنے سفر کا آغاز کیا۔ہمارے اس ٹینک میں جرمنی کے Leopard II کا پاور پیک (انجن) فٹ کیا گیاتھا لیکن امریکی دبائومیں آکر جرمنی نے انجن کی سپلائی بند کر دی۔مجبورا ہمیں یورکرائن سے ان کے ٹینک کے انجن کے لئے بات چیت کرنا پڑی اور 1996تک یوکرائن کے300 ٹینکوں کے علاوہ 400الخالد ٹینک تیار ہوکر میدان میں آچکے تھے۔اسی دوران ہمارےT-59, T-62, T-85ٹینک بھی اپ گریڈ ہو چکے تھے‘ متعدد خوبیوں کا حامل الضرار ٹینک بھی انہیں میں سے ایک ہے۔
ہمارے ہنرمند کاری گروں نے ٹینکوں کو اپ گریڈ کرنے میں اتنی مہارت حاصل کر لی ہے کہ آج الخالد۔1 کی صورت میں یہ ہمارے سامنے ہے ۔ وہ مایہ ناز ہتھیار ہے جسے جنگ کا بادشاہ کہا جا تا ہے کیونکہ اس ٹینک میں اتنی خوبیاں ہیں کہ ہماری جارحانہ دفاع کی حکمت عملی کی تائید میںزمینی اور فضائی جنگ کا حسین امتزاج پیش کرتے ہوئے دور تک اہداف کو کامیابی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔اگر اس حکمت عملی کو بروئے کار لایا جائے توالخالد ٹینک کی دھاڑ اورجے ایف 17کی گھن گرج‘ بھارت میں انبالہ تک سنائی دے گی اور جنوب میںگہرے سمندروں میں ہمارے سپر سونک کروز میزائلوں (Super Sonice Cruise Missiles) سے بچنے کے لئے بھارتی نیوی کے طیارہ بردار جہازآئی این ایس وکرامادتیا(INS Vikramaditya) کواپنی حفاظت کے لئے پناہ گاہ کی ضرورت ہوگی۔ میںکسی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لے رہا بلکہ یہ حقیقت ہے کہ ہماری سخت جان اور آزمودہ مسلح افواج ‘ جن کا شمار دنیا کی بہترین مسلح افواج میں ہوتا ہے‘دشمن کو سبق سکھانے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ انہیں کراچی میں کس کام پر لگا دیا گیا ہے۔
٭…٭…٭
امریکہ ایران تنازعہ ایک المیہ ہے
Aug 08, 2020