معزز قارئین ! یکم / 2 اگست کو اپنے انٹرویو میں پاکستان مسلم لیگ کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد ِ حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے اِس انٹرویو پر ’’ ایک حمامؔ میں ہم سب ننگے!۔ شہباز شریف ‘‘ کے عنوان سے آپ نے میرا کالم پڑھا ہوگا لیکن کل ہی شہباز شریف صاحب نے ’’ لندن باسی ‘‘ میاں نواز شریف کے بارے حکومتی پارٹی کے بیانات کووقار کے منافی قرار دیتے ہُوئے یہ بیان دِیا ہے کہ ’’سیاسی پگڑیاںؔ اُچھالنے والے پاکستان کی پگڑی ؔنہ اُچھالیں تو مہربانی ہوگی !‘‘۔
میاں صاحب نے یہ بھی کہا کہ ’’سیاسی فائدے کے لئے حقائق کے برعکس بیانات باعث ِ افسوس ہیں۔
تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کی زندگی پر سیاست ، بے حسی اور غیر انسانی روّیہ ہے۔ محض سیاست کے لئے ایک فرد ( میاں نواز شریف )کو بدنام کرنے کا حکومتی روّیہ پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے ! ‘‘۔
’’بیانات حکومتی ارکان ! ‘‘
دراصل حکومتی ارکان نے میاں نواز شریف کا یہ اعلان قرار دے کر کہ ’’ ( مَیں پاکستان نہیں جائوں گا ) پر تبصرہ کِیا ہے کہ ’’ کوئی شرم ہوتی ہے اور کوئی حیا ہوتی ہے ، وغیرہ وغیرہ !‘‘۔
معزز قارئین ! یہ دونوں فریقوں کا اپنا اپنا انداز ہے لیکن یہ فیصلہ تو ہوگیا کہ ’’ میاں شہباز شریف کا یہ بیان کہ ’’ ایک حمام ؔمیں ہم سب ( سیاستدان) ننگے ہیں !‘‘ مشکوک ہوگیا ہے ۔ یقینا پاکستان تحریک انصاف ، اُس کی اتحادی جماعتوں اور "P.D.M" ’’ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ‘‘ میں شامل 10 سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے الگ الگ حمام ؔ ہیں ۔ یہ اُن کا اپنا معاملہ ہے۔ میرا اور غیر سیاسی پاکستانیوں کا شہباز شریف صاحب کے بیان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ دراصل ہمارا تو اپنا اپنا حمام ؔہے۔
’’ عام پگڑی اور سیاسی پگڑیاں !‘‘
معزز قارئین ! پگڑیؔ ہندی زبان کا لفظ ہے ۔ اُردو اور پنجابی میں بھی اِسے پگڑی ؔ یا صافہ کہا جاتا ہے۔ فارسی زبان میں دستار ، عربی میں عمامہ اور انگریزی میں "Turban" ۔ کہا جاتا ہے ۔
پگڑی کو عزت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور پگڑی ؔ اُترنا یا اُتارنے کا مطلب ہے بے عزّت ہونا یا کرنا ۔ دُنیا کے اکثر ملکوں میں ( ہمارے پیارے پاکستان میں بھی ) گلی ، محلوں ، سڑکوں یہاں تک کہ اسمبلیوں میں بھی ایک دوسرے کی پگڑی ؔ اُچھالنے کا رواج ہے ۔
اُستاد شاعر عادل اسیر ؔدہلوی نے کسی زاہد ؔ کے بارے میں یہ شعر کہا تھا کہ …
’’ زاہد کی قدر خاک ہو ، رِندوں کے سامنے!
آیا فرشتہ خاں بھی تو، پگڑی اُتر گئی! ‘‘
…O…
اُستاد شاعر شوق قدوائی ؔ نے قیس (ؔ مجنوں ) کے بارے کہا تھا کہ …؎
کہاں اب چھوٹتی ہے سر زمیں ، اِس سے بیاباںکی!
’’ پگڑی قیس ؔسے ، اٹکی ہے ، تیرے خانہ ٔویراں کی !
…O…
اُستاد حیدر علی آتش ؔ نے کہا تھا کہ …
شیخی ومشیخت نہیں ، میخانہ میں چلتی !
یہاں پگڑی اچھلتی ہے ،خرابات مغاں ہے!
…O…
نواب مرزا داغ دؔہلوی نے فرمایا تھا کہ …
شکل ثابت نظر آتی نہیں عمامے سے!
شیخ نےؔ بدلی ہے پگڑی ؔ کسی مستانے سے!
…O…
معزز قارئین ! اب مَیں پگڑی اتارنے یا اچھالنے کے بارے زیادہ شعر نہیں لکھوں گا کہیں مجھ پر کوئی معزز شخصیت الزام نہ لگا دے کہ ’’ آپ کے درج کئے گئے اشعار پارلیمنٹ یا کسی صوبائی اسمبلی کے ارکان نے اپنی تقاریر میں استعمال کر لئے ہیں ؟
’’ لندن پلان !‘‘
1971ء میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو موقع پا کر صدر بنگلہ دیش شیخ مجیب اُلرحمن اور پاکستان کے پختون لیڈر خان عبداُلولی خان کی لندن میں ملاقات ہُوئی تو اُس ملاقات کا نام ’’ لندن پلان ‘‘ پڑ گیا اور اُس کے بعد جب بھی کسی سیاستدان کی ملاقات ہوتی تو اُسے ’’ لندن پلان ‘‘ ہی کہا جاتا تھا ۔
14 مئی 2006ء کو صدر پرویز مشرف کے دَور میں دو سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی ملاقات ہُوئی تو، اُسے بھی لندن پلان کہا گیا۔
میاں نواز شریف یا کوئی بھی سابق یا حاضر وزیراعظم یا کوئی اور عہدیدار لندن کے دورے پر جاتا ہے تو اُن کی ملاقاتوں کو بھی’’ لندن پلان ‘‘ یا ’’ فلان ڈھمکان ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ لندن جانے اور واپس آنے اور کبھی نہ آنے کے بارے میاں نواز شریف بہت ہی ’’ کاریگر ‘‘ ہیں ؟
’’علاج کے لئے لندن !‘‘
ہمارے حکمرانوں یا سابق حکمرانوں کا علاج کے لئے لندن جانا عام سی بات ہے۔ اُن دِنوں میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان تھے جب موصوف اپریل 2016ء کے وسط میں علاج کے لئے لندن گئے ۔ وزیراعظم نواز شریف نے "Heathrow Airport" پر صحافیوں سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ میرے معاملات ٹھیک نہیں ہیں ، معاملات ٹھیک کرنا ہوتے تو مَیں "Panama" جاتا؟‘‘
اِس سے پہلے (اُن دِنوں )وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ وزیراعظم صاحب طبی معائنے کے لئے نہیں بلکہ باقاعدہ علاج کے لئے لندن جا رہے ہیں اور جب ڈاکٹر صاحبان اُنہیں اجازت دیں گے تو، وہ واپس آ جائیں گے !‘‘۔
اِن دِنوں میاں نواز شریف صاحب کے علاج معالجہ کے بارے میں وہ خود ہی کوئی فیصلہ کریں گے یا نہیں کریں گے ؟۔
"Commonwealth"
انگریز حکمرانوں کا کمال یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے غلام ملکوں کو آزاد کر کے اُنہیں Commonwealth (دولت ِ مشترکہ) کے جال میں جکڑ رکھا ہے ، جب اُس تنظیم کے سربراہی اجلاس میں سابق غلام قوموں کے منتخب یا غیر منتخب سربراہوں کی ، ملکۂ برطانیہ (Queen Elizabeth II) کے برابر ’’ کرسیوں ‘‘ (Chairs) پر بٹھایا جاتا ہے تو اُن کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور اُن کا ایک نیا شجرہ ٔ نسب بن جاتا ہے اور لوگ اُن کی ’’آنیاں جانیاں‘‘ ویکھدے نیں! ۔ اِس کے باوجود آج پاکستان کے سابق اور سزا یافتہ وزیراعظم میاں نواز شریف اپنی بیماری کا علاج کرانے کے لئے برطانوی قوانین کے ماتحت ہیں ۔
حکومتی پارٹی کے ارکان اُن کی پگڑی تو واقعی اچھال رہے ہیں لیکن میاں شہباز شریف کے اِس دعوے کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا جب حکومتی ارکان میاں نواز شریف کی پگڑی اچھالتے ہیں تو گویا وہ پاکستان کی پگڑیؔ اُچھل جاتی ہے ؟ ‘‘۔
پنجابی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ ’’ مُنہ بھیڑا ہووے تے گَل تے بھیڑی نئیں کرنی چاہیدی ؟ اللہ نہ کرے ؟
٭…٭…٭