لاہور(حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس) انیس سو چورانوے عالمی کپ ہاکی ٹورنامنٹ اور چیمپئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ کے فاتح کپتان اولمپیئن شہباز احمد سینئر نے کہا ہے کہ یہی حالات برقرار رہے تو آئندہ بیس سال بھی ہاکی میں بہتری نہیں ہو سکتی، بہترین غیر ملکی کوچ اور سپورٹ سٹاف کی خدمات حاصل کرنے میں کوئی برائی نہیں ، وزیراعظم عمران خان سے ہاکی پلیئرز کو بہت امیدیں تھیں لیکن انہوں نے قومی کھیل کو بہت بری طرح نظر انداز کیا ہے، سابق کھلاڑیوں کی اکثریت ہر وقت تنقید کو فرض سمجھتی ہے، سب کی نظریں پاکستان ہاکی فیڈریشن پر ہوتی ہیں، سوشل میڈیا پر نظر آنے والی اکیڈمیوں یا سرگرمیوں سے قومی کھیل کی بحالی ممکن نہیں، اولمپکس ہاکی ایونٹ کا گولڈ میڈل میچ دیکھا ہے، دونوں ٹیمیں اچھی ہاکی کھیلنے میں ناکام رہی ہیں، بھارت نے برانز میڈل تو حاصل کیا لیکن بھارتی ٹیم کو ورلڈکپ سمیت دیگر اہم ٹورنامنٹس جیتنے کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے، بھارتی کھلاڑیوں کی فزیکل فٹنس کا معیار بلند ہوا ہے، وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے کھیلتے ہیں۔ پاکستان میں صلاحیت کی کمی نہیں لیکن ہمارے پاس ہاکی کا بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں، پاکستانی کھلاڑیوں کی فٹنس کا برا حال ہے، خود غرض اور انفرادی کھیل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنی ہاکی ٹیم کو دنیا کی بہترین ٹیموں میں دیکھنا چاہتے ہیں تو صوبائی سطح پر عالمی معیار کے ہائی پرفارمنس سنٹرز بنائے جائیں، ہاکی پلیئرز کی تعلیم، کھیل، فٹنس اور معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کی حکمت عملی اختیار کی جائے، چند سال تک ہاکی پر مسلسل پیسہ خرچ کیا جائے، توجہ دی جائے تو کم از کم پانچ سال کے بعد بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی ہاکی کھیلنے اور پسند کرنے والوں کو مایوس کیا ہے۔ حکومت درخت لگا رہی ہے، سیاحت کے فروغ کی بات کر رہی ہے لیکن کھیلوں پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ کھیلوں کو نظر انداز کرکے صحت مند معاشرہ تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ کوئی حکومت قومی کھیل کی سرپرستی کرنے کیلئے تیار نہیں ، بین الصوبائی رابطے کی وزارت اور پاکستان سپورٹس بورڈ بھی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ وزیروں اور ڈائریکٹرز کے اپنے کام تو ہوتے رہتے ہیں لیکن قومی کھیل پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ سابق کھلاڑی ذاتی اختلافات کی وجہ سے فیڈریشن کو ملنے والے فنڈز پر اعتراضات اٹھاتے ہیں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ایسے الزامات کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ کھیل کا معیار بلند کرنے کیلئے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے میں کوئی برائی نہیں ‘ وہ باقاعدہ نظام اور مسلسل انتظامی معاملات اور کوچنگ کے شعبے میں کام کرنے کے بعد قومی سطح پر آتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا رواج نہیں۔ فنڈز کے بہتر، شفاف اور مناسب استعمال کے بہت سے طریقے ہیں۔ ہاکی کو ماضی والے مقام پر لانے کیلئے حکومتی سرپرستی، بڑی سرمایہ کاری اور مستقل بنیادوں پر ہاکی لیگ کی ضرورت ہے۔