ملکی اور سیاسی حالات اس وقت جس ڈگر پر چل رہے ہیں ان سے کوئی بھی ذی شعور نظریں نہیں چرا سکتا ملکی اور سیاسی منظر نامہ بجائے سنورنے اور نکھرنے کے مزید بگڑتا جا رہا ہے حالات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ گتھی بجائے سلجھنے کے الجھی ہی جا رہی ہے یعنی
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے
معاملات کے الجھاؤ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مرکز اور صوبوں کے درمیان اختلافات کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے مسائل بھی حل طلب ہیں۔ الیکشن کمشن نے الگ سے ایک نیا پنڈوراباکس کھول دیا ہے۔ عوامی اور سیاسی حلقے بھی اب الیکشن کمشن کی کارکردگی اور جانبداری کے حوالے سے سوال اٹھا رہے ہیں۔ حالات اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دوسری جماعتوں کے غیر ملکی فنڈز کے حوالے سے معاملات سامنے لائے جائیں تاکہ کسی ایک جماعت سے ناروا سلوک کا تاثر ختم ہو الیکشن کمشن شروع سے ہی اپنے فرائض بخوبی سر انجام دیتا تو یہ صورت حال نہ ہوتی مقتدر حلقے بھی حالات کی رسی کو مزید ڈھیل دینے کی بجائے اسے سمیٹنے کی کوشش کی جائے ملکی معیشت اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ڈالر کے بڑھنے اور کم ہونے پر بھی عوام کے کئی سوال اور تحفظات ہیں مسائل اور معاملات کی گتھی کو سلجھانے کیلئے مثبت اقدامات کا کیا جانا بہت ضروری ہے۔ الیکشن کمشن کو بھی موجودہ حالات میں پارٹی نہیں بننا چاہیے بلکہ اپنے طرز عمل سے اپنی غیر جانبداری ثابت کرنا چاہیئے مقتدر حلقے اور تمام سیاسی جماعتیں بشمول حکومت اور اپوزیشن ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کے ذریعے ان تمام معاملات کا کوئی قابل قبول حل تلاش کریں۔ بار بار قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا ڈول ڈالنے کی بجائے اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالا جائے جو عام آزادانہ اور شفاف انتخاب پر ہی مبنی ہو سکتا ہے بصورت دیگر معاملات اور الجھیں گ ے یعنی
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور حکومت کی کمزوری کی وجہ سے آئی ایم ایف سمیت کوئی بھی ملک پاکستان کو مزید قرضہ دینے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہا ان حالات میں ملک کے داخلی حالات کو سدھارنا نہایت ضروری ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے پر تندوتیز حملے اور کردار کشی کا خاتمہ بھی نہایت ضروری ہے دونوں طرف کے گرم مزاج اور لڑاکا طیاروں کو ایک دوسرے کے جذبات ابھارنے کی بجائے افہام و تفہیم اور تحمل و برداشت کی ضرورت ہے۔ اگر ہر سیاسی جماعت اور حکومتی ترجمان ہی سیاسی اور حکومتی معاملات پر بریفنگ دیں تو یہ زیادہ مناسب ہے کسی بھی معاملے پر حکومت کا ہر وزیر اور مشیر الیکٹرانک میڈیا پر اپنی حکومت یا جماعت کا موقف پیش کرے وزرا اہنی وزارتوں کی کارکردگی پیش کریں نا کہ وہاں بیٹھ کر گولہ باری کریں میڈیا والے بھی ایسے پروگرام ترتیب دیں جن میں حکومتی وزرا اور سیاست دانوں سے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی پروگرام لیں اپنی اور عوامی تجاویز پیش کریں تو ہی ہمارے ملک کے حکومتی اور سیاسی منظر نامے میں کچھ مثبت تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ ہمارا میڈیا تو اس وقت جلتی پر تیل ڈالنے کا کام سر انجام دے رہا ہے۔ ٹاک شو پر بیٹھنے والے پردھان اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اور معاملات کو سلجھانے کی بجائے الجھانے کا باعث بنتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان رویوں کی وجہ سے آئے روز ایک نیا پنڈورا باکس کھلتا جا رہا ہے اور اس ساری افراتفری میں ہماری عوام بجلی کے بلوں، بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کے مسائل اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبی جا رہی ہے مرکز میں اپوزیشن نہ ہونے کی وجہ سے حکومت اپنی مرضی کی قانون سازی کر رہی ہے معاملات اور جھگڑے عدالتوں میں لائے جا رہے ہیں اور عدالتیں عوامی مسائل کے حل کی بجائے حکومتی اور سیاسی جھگڑوں کو نپٹانے پر مجبور ہیں۔ ہمارے قانون ساز اداروں کو افہام و تفہیم کے ساتھ مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ قانون سازی پر بھی توجہ دینا چاہیے اور محض اپنی من مانی اور مرضی کی قانون سازی کرنے کی بجائے مفاد عامہ کیلئے قانون سازی کرنی چاہیے۔ سردست سب سے بڑا مسئلہ ملکی معیشت کو بہتر بنانا اور اسے تجربہ کار اور محفوظ ہاتھوں میں دینا ہے جس کیلئے تمام طبقات کو مل جل کر کام کرنا ہو گا بصورت دیگر ایک کے بعد دوسرا مسئلہ سر اٹھاتا رہے گا اور کوئی نہ کوئی نیا پنڈوراباکس کھلتا نظر آئے گا اور یہ ملک ایک تجربہ گاہ بنتا رہے گا۔