جس کا جھولا فرشتے جھلاتے رہے

ہرابتدا سے پہلے ہر انتہا کے بعد
 ذات بنی بلندہے، ذات خدا کے بعد 
دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ 
میں سب کومانتاہوںمگر مصطفیؐ کے بعد
 قتل حسینؓ  اصل میںمرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتاہے ہرکربلاکے بعد
تخلیق کائنات سے لے کر آج تک کے تاریخی معرکوں اور شہادیوں کو دیکھاجائے تو زمین کربلا پردریائے فرات کے کنارے امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کی شہات اور ان کے جانثاروں کا جان کا نذرانہ پیش کرنا اس کی نظیرنہیں ملتی۔
حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ جیسی وہ ہستیاں جن کے کانوںمیں اذان اللہ کی محبوب رحمت العالمین نے دی جن کے رونے کی آواز سن کر نبی آخرالزمان پریشان ہوکرکھڑے ہو جاتے تھے۔وہ ہستیاں جو اپنے نانا محترم کی پشت مبارک پہ اس وقت سوار ہوتے جب وہ روشن پیشانی سے اللہ کے حضور جھکے ہوتے اور انہیں اتارنے والوں کو منع فرماتے جن کیلئے ہمارے پیارے نبیؐ نے فرمایا کہ جس نے حضرت حسنؓ اور حسینؓ  سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ جن پاک ہستیوں کے کپڑے جنت سے آیا کرتے ہوں تو ان کی محبوبیت میں جان کیوں نہ دی جائے؟ ان کی عزت وتوقیر کی صدائیں کیوں نہ بلند کی جائیں؟وہ نواسہ رسول جن کیلئے اگر حکم ہوجاتا تو آسمان سے تخت وتاج حاضرہوجاتے، ان کیلئے جنت سے دودھ کی نہریں بھجوادی جاتیں۔ مگر ہوا کیا؟ آزمائش کا در کھول دیاگیا اورامتحان کا وقت آن پہنچا۔ نواسہ رسولﷺ کی پیشانی پہ تمغہ شہادت چمکنے لگا ان کے اہل خانہ اور دیگر ساتھیوں کیلئے شہادت کے مرتبے باغ ارم کے گُلوںسے  مدحت لئے ہوائیںمعطرکرنے لگے۔ وہ حضرت اصغر اور حضرت اکبر ،حضرت سکینہ اور حضرت عباس۔ جن کی آنکھوںمیں حُبِ حسین امام عالی مقام کے چراغ روشن تھے، آج بھی ظلمت کدوں کوروشن کرتے ہیں۔ واقعہ کربلا تاریخِ انسانی کاغیرمعمولی واقعہ ہے اس قربانی وایثار کے دلسوز اور محبت آفرین واقعے میں انسان اور انسانیت کیلئے اخلاق آموز پہلو کے ساتھ ساتھ ہمارے عقائد عبادات، سیاست اور تاریخ کیلئے اہم معاملات سامنے آتے ہیں۔ اس واقعے کے ہمارے ادب پہ بھی انمنٹ اثرات پڑے ہیں، ادباء شعراء کے فکرونظر اور تخیل کو وسعت ملی، شعر ونثرکی کئی سمتیں او رجہتیں اختراع ہوئیں۔مرثیہ گوئی کو عروج ملا غزل میں سلام کا اضافہ ہوا۔ اسی طرح سے خیروشر، نیکی وبدی، حق وباطل یعنی کہ حسینیت اور یذیزیت کے درمیان معرکہ آرائی جو پہلے بھی جاری تھی واقعہ کربلا کے بعد شدومد سے ہمارے معاشرے پہ اثرانداز ہونے والے تمام پہلوئوںمیں دَرآئی۔ 
حسینیت پہ ظلم روا، یزیدیت کا راج، معصوم بچوں، عورتوں اور جانوروں تک رسدزندگانی مفقود اور یزیدیت مال ومتاعِ نفس سے آسائش میں ڈوبے تکبر وظلم کے نعرے لگاتے، خدا کی زمین پہ خدا کے محبوب کی آل پہ پانی کے ایک قطرے کی رسائی بھی مفقود۔ پھر نعرہ حق کلمہ توحید کے نعرے لگاتے جسم چھلنی ہوئے۔
پانی تک آل رسول کی رسائی بند تھی جھلسا دینے والی دھوپ کی شدت اتنی کہ ریت کے ذرے بھی الاماں پکار رہے تھے۔ مگر یزید کے ہاتھ پہ بیعت سے انکاری امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ نے ظلم وستم پہ لبیک کہتے ہوئے شہادت قبول فرمائی۔یزیدیت کی یلغارمیں جسم نیزوں سے چھلنی ہوئے۔ننھے علی اصغر کے حلق میں تیر پیوست ہوا، ساتھیوں کے بازو کٹے پھر سرتن سے جدا ہوگئے مگر امام عالی مقام آل رسول جگرگوشہ فاطمۃ الزہرہ کو رہتی دنیاتک قربان ہوکر زندگی ملی، اوریزیدیت کو موت نصیب ہوئی۔
جس کا جھولا فرشتے جھلاتے رہے
 لوریاں دے کر نوری سلاتے رہے
 جس کو کندھوں پر آقا بٹھاتے رہے
 اس حسین ابن حیدر پہ لاکھوںسلام
امام عالی مقام کی شہادت کا ایک انتہائی سبق جو ہم نے ابھی تک سیکھا نہیں کہ جس میں ہم قربانی کیلئے تیار ہوسکیں سچ کا ساتھ دے سکیں،ناانصافی کا سرقلم کرسکیں،صلہ رحمی سے کام لے سکیں، معافی اور درگزر کی صفت کواپنائیں، جب ہم ایسا کر پائیںگے تو ہم ہر اس برائی سے اپنے آپ کو پاک کرلینگے جس سے یزیدیت کا نام دیاجاتاہے۔ہماری جان بھی امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ پر قربان، ان کی قربانی ہی ہماری زندگی کیلئے حسینیت کا پیغام ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن