لاہور ( نوائے وقت رپورٹ )برطانوی ہوٹلز میں مقیم افغان پناہ گزین ایک سال بعد بھی اے گھرواپسی کے منتظر ، کابل میں برطانوی فوج کے سابق ترجمان برہان کی فیملی بھی ان میں سے ایک ہے برہان اور ان کا خاندا ن چھ سالہ سے وشال کھڑکی سے چہرہ چپکائے گاڑیاں گنتے ہوئے یہ بھی گِن رہے تھے کہ وہ کتنے دن بعد ہیتھرو میں اس ہوٹل سے باہر نکل سکیں گے جہاں اْن کو رکھا گیا تھا۔یہ گذشتہ سال اگست کی بات ہے جب وہ اپنے والد برہان اور اپنی والدہ نارکس کے ساتھ افغانستان سے اس وقت برطانیہ آئے تھے جب طالبان نے ملک پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ خاندان خود کو خوش قسمت سمجھتا ہے۔بی بی سی نے اْن کے اِس سفر کو قریب سے دیکھا ہے: کابل میں اس وقت سے جب برطانوی فوج کے لیے ترجمان کا کام کرنے والے برہان اپیل کر رہے تھے کہ اْن کو افغانستان میں نہ چھوڑ دیا جائے سے ایئر پورٹ پر تمام تر خطرات میں اپنے کاغذات لہرانے سے بحفاظت برطانیہ آمد تک کا سفر،ان تمام رپورٹس کو سکاٹ لینڈ کے شہر ایبرڈین میں ہیلگا مکفارلین دیکھ رہی تھیں جو ان کی بے بسی سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انھوں نے اس خاندان کو اپنے شہر میں ایک فلیٹ کی پیشکش کی جہاں وہ اپنی زندگی کا از سر نو آغاز کر سکتے تھے۔مگر انہیں آج بھی اپنا وطن یاد آتا ہے۔