طغیانی اور سیلاب: بوڑھی کا شکوہ سن کر وزیراعظم آبدیدہ ہوگئے 

خیبرپختوانخوا ‘ جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں مون سون‘ شدید بارشوں‘ طغیانی اور سیلاب نے جان ومال کے لیے جو خطرات پیدا کئے اس کا اظہار الفاظ میں مشکل ہے۔ 200 کے قریب اہل وطن کی زندگیوں کا چراغ گل ہوا ، کئی دیہات نام ونشان چھوڑ گئے۔ مکانات تباہ‘ جانوروں کی وسیع پیمانے پر ہلاکت اور متاثرین کے کھلے آسمان تلے شب روز گزار رہنے کی دل ہلا دینے والی خبروں سے محبان وطن پریشان اور افسردہ ہیں۔ گو وفاقی وصوبائی حکومتیں اپنے اپنے طور پر امدادی سرگرمیوں کی نگرانی میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف خود بلوچستان گئے متاثرین سیلاب کے امدادی کیمپوں میں مقیم افراد کی گفتگو سن کر وزیراعظم نے جن خیالات کا اظہار کیا اس سے ہم اپنے نظام حکومت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ متاثرین وزیراعظم میاں شہبازشریف سے شکایات کرتے رہے کہ انہیں کمپیموں میں کھانا مل رہا ہے نہ دوا۔ ایک بوڑھی کا شکوہ سن کر خود وزیراعظم آبدیدہ ہوگئے بوڑھی زندگی کا کہنا تھا بیٹا! دو دن سے پینے کے پانی کی منتظر ہوں یہ وہ شکوے تھے جس پر وزیراعظم نے وزیراعلی بلوچستان کی موجودگی میں برہمی کا اظہار کیا۔ وزیراعلی نے ریسیکو اور امدادی امور میں غفلت برتنے پر انتظامی افسران کو معطل کر دیا۔ میاں شہبازشریف کی ہدایت پر متاثرین میں 24 گھنٹوں کے دوران امدادی رقوم تقسیم کی گی۔ وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی نے بھی منگل کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں راجن پور اور ڈی جی خان کا دورہ کیا انہوںٰنے جان بحق افراد کے ورثاءکو آٹھ آٹھ لاکھ کی امداد دی ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کی خدمت حکومت کا فرض ہے اور ہم اس فرض سے غفلت نہیں برتیں گے۔ اسی دوران ہیلی کاپٹر حادثہ کی روح شکن خبر ملی، اللہ پاک سب کی خیر کرے آمین ۔ شعبہ تعلقات عامہ پاک فوج کی طرف سے باضابطہ اعلان کیا تھا کہ موسم کی خرابی کے باعث ہیلی کاپٹر حادثہ کا شکار ہوا ہے جس میں سوار کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی ،میجر جنرل امجد حنیف کمانڈر کوئٹہ، بریگیڈیئر خالد ،پائلٹ میجر سعید ،کو پائلٹ میجر حافظ طلہ منان جرال اور نائیک مدثر شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے ،جب یہ خبر سنی تو اہل وطن غم سے نڈھال تھے ۔یا اللہ جنرل سرفراز علی اور ان کے ساتھیوں نے مصیبت زدہ سیلاب میں گھیرے اپنے بھائیوں کو ریسکو کرنے کے لیے اپنی جان تک کی پرواہ تک نہیں کی اور اپنی جانوں کو ملک و قوم پر قربان کر کے ثابت کر دیا کہ پاک فوج کے ہر افسر و جوان کا خاندان پورا پاکستان ھے پاکستان کے عوام ہیں مشکل و مصیبت کی ہر گھڑی یہ ان کی پشت پر کھڑے ہوکر آفات ناگہانی سماوی و زمینی سے ان کو محفوظ و معامون بنانے کے لیے ہر دم تیار ہوتے ہیں۔ پاک فوج کے شہدا کی قربانیوں کو اہل پاکستان سر آنکھوں پر رکھتے ہیں شہدا کے ورثا میں پورا پاکستان ہے ان کی شہادت کوسعادت تو سبھی مانتے ہیں لیکن ان کی جدائی ایک ایسے صدمے سے دوچار کرتی ہے جو زندگی کی باقی آخری سانسوں تک سہنا پڑتا ھے....ریسیکو اور امدادی سرگرمیاں کے تمام سلسلے اپنی جگہ درست ہیں لیکن یہ سوال بدستور اپنی جگہ موجود ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے جو ادارے بنائے گئے ان کی کارکردگی کیا ہے نیشنل ڈسیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی NDMA کے قیام کا اولین مقصد قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی خدمت اور راہنمائی کے سوا اور کیا ہے اب اگر امدادی کیمپ میں کوئی شخص یا خاندان یہ گلہ کرکے کہ اسے کھانا اور دوا نہیں مل رہے تو پھر ادارے کی کارکردگی پر سوال تو اٹھتا ہے؟
یاد رہے دین اسلام کی اساس اخوت‘ قربانی‘ احساس پر مبنی ہے۔ مسلمان مصیبت میں دوسروں کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے جس نے ایک جان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو محفوظ کیا حکمرانوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں زیادہ ذمہ داری کا احساس کرناچاہیے۔ خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ دریائے فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی بھوک سے مرگیا تو اس کا جواب حضرت عمرؓ کے سر ہوگا۔ جب تک ہم اور ہمارے ادارے اپنے معمولات میں خدمت انسانیہ اور فرض کی ادائیگی کو اولیت نہیں دیں گے تو رائج صورت حال میں مثبت کروٹ مشکل ہے۔

ای پیپر دی نیشن