دبئی چلو اور اب ’’کینیڈا چلو‘‘

Aug 08, 2023

مطلوب احمد وڑائچ

گلوبل ویلج:مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
میری زندگی کا طویل عرصہ یورپ اور نارتھ امریکہ میں گزراہے، شروع سے سیاست سے تعلق ہے۔ سوشل ورک تو فطرت کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ اب تو میری ایک سیاسی پارٹی بھی ہے۔ عام آدمی کی صحت کے حوالے سے، تعلیم کے حوالے سے اور دیگر معاملات میں آگاہی اور راہنمائی وہ میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اس حوالے سے بہت سے لوگوں کے میرے ساتھ رابطے رہتے ہیں۔ لوگوں سے براہ راست ملنا جلنا بھی رہتا ہے۔ آج کل زیادہ تر طرح سوشل میڈیا کے ذریعے رابطوں میں آسانی ہو گئی ہے۔ عام لوگ پاکستان میں میرے حلقے کے لوگ اور میں یہاں نارتھ امریکہ میں ہوں وہاں پر پاکستانی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والوں لوگ بھی اپنے مسائل کے حوالے سے رجوع کرتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے۔ لیکن گذشتہ چھ سات ماہ سے کینیڈا آنے کے لیے لوگوں کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔
 میرے جو پہلے سے واقف کار ہیں اور جو سوشل میڈیا پر متعارف ہوتے ہیں سب ایک ہی مدعا بیان کرتے ہیں کہ کینیڈا کیسے آیا جا سکتا ہے۔ اس رجحان میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب کینیڈا کی طرف سے پاکستانیوں کے لیے ویزے میں کچھ آسانیاں پیدا کر دی گئیں۔ اس کو زیادہ تر ایجنٹوں نے کیش کیا۔ پاکستان میں جس طرح کے حالات ہیں، جس طرح سے لوگ مہنگائی کی چکی میں پِس کر جو کل زکوٰۃ دینے والے تھے آج خود زکوٰۃ کے مستحق ہوگئے ہیں۔ ان کی حالتِ زار دیکھتے ہوئے میرا دل کرتا ہے کہ ایسے سارے لوگوں کو بلاتاخیر کینیڈا شفٹ کر دوں۔
گذشتہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران پاکستان سے پندرہ لاکھ لوگ بیرونِ ممالک جا چکے ہیں۔ یہ اعدادوشمار پی ٹی آئی کے چیئرمین کی طرف سے دیئے گئے ہیں۔ جب کہ میری اسیسمنٹ کے مطابق پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک جانے والوں کی تعداد پندرہ لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح سے لوگ فیملی سمیت پاکستان سے باہر گئے ہیں وہ کوئی ساٹھ لاکھ کے قریب ہوں گے۔ ان میں سے دس پندرہ لاکھ تو وہ لوگ ہیں جو ہنرمند تھے، انجینئر تھے، ڈاکٹر تھے، بزنس مین تھے، تعلیم کے اعلیٰ شعبوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔ گویا ایک طرح سے برین ڈرین ہو گیا جن لوگوں کی ہمیں ،ملک کو ترقی کی معراج تک پہنچانے کی ضرورت تھی یا ہے وہ بیرون ملک چلے گئے۔ ان کو پڑھایا لکھایا، دریاست نے ،وسائل خرچ کیے لیکن جب ان سے آ?ٹ پٹ کی ضرورت پڑی تو ان کے لیے حالا ت ایسے کر دیئے گئے کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔اگر ان کو مشکلات کا سامنا نہ ہوتا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ یہ لوگ بیرون ملک جاتے۔ ان کے علاوہ عام لوگ بھی پاکستان چھوڑنے والوں میں شامل ہیں۔ کاروباری، انجینئر،سائنسدان، ڈاکٹر ،ٹیچر یہ لوگ تو اتنے زیادہ ملکی حالات سے دل برداشتہ ہوئے ہیں کہ نوے نوے لاکھ روپیہ بھی انہوں نے ادا کیا اور پاکستان چھوڑ گئے۔ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بیس بیس لاکھ روپیہ دیا ان میں سے کئی راستے میں تاریک راہوں میں گم ہو گئے۔ منزل پر پہنچنے کی بجائے موت کی وادی میں اتر گئے۔لوگ دوسرے ممالک سے بھی مائی گریٹ کرتے ہیں بہتر مستقبل کے لیے ،دوسرے ممالک چلے جاتے ہیں۔ لیکن ان کا ایک طریقہ کار ہے ،ہماری طرح سے بھیڑ چال نہیں ہے۔ ہم بھارت کو لے لیتے ہیں، بھارت کے ساتھ ہمارے بہت سے مشترکات ہیں، دشمنی کے باوجود بھی۔ اگر ان کی کوئی بہتر پالیسی ہے تو اس کو اسی طرح سے جج کیا جا سکتا ہے جس طرح سے ہماری حکومت نے کرونا کے دوران اقدامات کیے اور دنیا کے بہت سے ممالک نے ان کو فالو کیا۔
 بھار ت کی آبادی بڑھتی جا رہی تھی، آبادی کے ساتھ ساتھ غربت میں اضافہ ہو رہا تھالیکن کچھ عرصے سے انہوں نے اپنی آبادی کو بوجھ کی بجائے ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ کل تک چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا، آج بھارت ہے۔ اکانومی کی بات کی جائے تو بھارت کا کچھ عرصہ پہلے دنیا میں پچاسوں نمبر تھا، برطانیہ کا تیسرا تھا۔ اب برطانیہ پانچویں نمبر پر چلا گیا ہے اور بھارت چوتھے نمبر پر آ گیا ہے۔یہ سارا کچھ کیسے ممکن ہوا بھارت سے ہر سال کینیڈا ڈیڑھ لاکھ لوگ جاتے ہیں اور امریکہ جانے والے بھارتیوں کی تعداد دو لاکھ سالانہ ہے۔ اور پوری دنیا میں بھارت سے ایکسپورٹ ہونے والے لوگوں کی تعداد دس لاکھ ہے۔ کوئی جرمنی گیا، کوئی جاپان گیا اور کوئی یورپ کے کسی اور ملک میں گیا اور عرب ممالک میں جانے والے بھارتی بھی ہزاروں کی تعداد میں سالانہ جاتے ہیں۔ ان میں آپ کو ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جو انجینئر ہو، ڈاکٹر ہو، پروفیسر ہو، کاروباری ہو، سارے کے سارے وہ لوگ ہیں جن کو بطور خاص بیرون ملک جانے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اور اکثر کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے، ٹریننگ کی جاتی ہے۔ جیسا کہ بھارت کے کئی شہروں میں سیلی کون ویلی بن چکی ہیں وہاں پر آئی ٹی ایکسپرٹ تیار ہوتے ہیں اور ان میں سے ضرورت کے مطابق بھارتی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں اور باقی جتنے بھی سارے کے سارے بیرون ملک بھیجوا دیئے جاتے ہیں۔ اس سے بھارت کی جہاں پر اپنی ترقی اور خوشحالی متاثر نہیں ہوتی وہیں پر معیشت کا پہیہ بھی تیزی سے گھومنے لگتاہے۔ 
ایک طرف بھارت ہے جس نے اپنی ترجیحات کیا سے کیا بنا دی۔ اور دوسری طرف ہماری ترجیحات پر ذرا غور کر لیں۔ سارے کام چھوڑ کر ہمارا مرکز اور محور سیاست ٹھہری ہے اور سیاست میں بھی مخالفین سے انتقام اور آخری حدوں تک جا کر انتقام۔ ہمارے مقتدر لوگوں کو ترجیحات پر اب نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ اللہ نے آپ کو ایک موقع دیا ہے توپھر اس کو پاکستان کی ترقی ،خوشحالی اور عام انسان کی زندگی بدلنے پر کیوں استعمال نہیں کیا جاتا۔ ہمارے پاس بھارت کے مقابلے میں ایک تو وسائل بہت زیادہ ہیں ،یہ بات میں آبادی کے تناسب کو دیکھ کر، کر رہا ہوں ،ذہانت اور کسی بھی شعبہ میں مہارت میں پاکستانی کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔ ضرورت ہے تو صرف ان کے ٹیلنٹ کو استعمال کرنے کی ہے ،ان کو مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، مقتدر حلقے پالیسی بہتر بنا دیں تو پاکستان بھارت سے معاشی حوالے سے، ترقی کے حوالے سے، خوشحالی کے حوالے سے ، مہارت کے حوالے سے کہی زیادہ آگے نکل سکتا ہے۔
قارئین! تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین کو گرفتار کرلیا گیا ہے یہ شاید حکومتی اور ریاستی ترجیحات میں پہلے نمبر پر تھا۔ میرے خیال میں پاکستان اب کسی قسم کا ایڈونچر افورڈ نہیں کر سکتا۔ملک میں بدامنی، سیاسی ومذہبی انتشار اور کھینچا تانی کا لامتناہی سلسلہ اب رْک جانا چاہیے۔بے شک ہم ترقی یافتہ اقوام میں شمار نہیں ہوتے مگر ہم ایک جدید ڈیجیٹل ترقی یافتہ دور میں رہ ضرور رہے ہیں۔اور ہمیں اس دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا ہوگا۔اب ہمیں ادراک تو ہو جانا چاہیے کہ ملک کے اندر اور باہر ہمارا دوست کون ہے یا ہمارا دشمن کون ہے؟قارئین!اگر ہم نے اپنی 75سال سے جاری روش نہیں بدلی تو ’’ہماری داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘‘۔

مزیدخبریں