کالم:لفظوں کا پیرہن تحریر:غلام شبیر عاصم
شاعر اور ادیب حضرات اکثر اوقات خیالات کی پریوں کے پروں اور جذبات کے برق رفتار گھوڑے پر سوار رہتے ہیں۔زیادہ تر مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں،تب جا کے داد لیتے ہیں۔قومی ترانہ کے خالق جناب حفیظ جالندھری نے تو در حقیقت ترانہ میں بڑی محبت سے سرزمینِ وطن کو لفظوں کے زیور سے آراستہ کیا ہے۔مگر اس سرزمین پر ظلم وجبر اور بدامنی کا کلچر دیکھ کر ڈر لگتاہے۔وہ قومی ترانہ میں فرماتے ہیں کہ"پاک سرزمین شادباد" انہوں نے تو کہہ دیا مگر ہم نے تو حیرانی کی دھوپ میں اپنے سروں پر پریشانی کے بادل ہی دیکھے ہیں۔ہمیں تو اس سرزمین پر خوشحالی،شادمانی اور فراوانی نظر نہیں آئی۔وطن کی محبت میں جذبات کی رو میں بہہ کر شاعر حضرات اشعار تو کہہ دیتے ہیں،لیکن اس جنت نظیر سرزمین پر غائر نظری سے دیکھیں تو ہر طرف،فکری اور جغرافیائی حوالے سے،منافقتیں، ہڑبونگ،دھینگا مشتی،قدغنیں، نحوستیں اور لعنتیں ہی تعفن کی طرح دماغ کو چڑھتی ہیں۔اس سرزمین پر عنایات خدائے احد کی کوئی کمی نہیں ہے،مگر یہاں"اس گھر کو آگ لگ گئی اس گھر کے چراغ سے"والی صورت حال ہے،اور ہم اس آگ کے الاو کو "روشنی"کا نام دے کر اجالوں بھری نظمیں تخلیق کر رہے ہیں۔دراصل اس روشنی کو تیرگی سے تعبیر کیا جانا چاہئے۔ہم خود کو نقصان پہچانے والے دلفریب مغالطوں کا شکار ہورہے ہیں۔اللہ پاک نے اس ارض پاک کو کئی قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔کوئلہ،جپسم،نمک، خام لوہا،کرومائیٹ،تانبا،سنگ مرمر،گیس اور خام تیل وغیرہ سے مالا مال کیا ہے۔لیکن اس گلستان کے ہر پیڑ کی ہر شاخ پر اْلو پر پھیلائے بیٹھے ہیں۔اب تو لگتا ہے کہ یہ پاک سرزمین قدرتی وسائل کے بجائے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔غریب عوام جوکہ پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔اب پیٹرول اور بجلی مہنگی کرکے جرہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔دراصل ہم عوام نامیروں،جاگیرداروں،وڈیروں،نوابوں اور بیورو کریسی کی"ہوس"کے کھیتوں میں اگنے والی وہ فصل ہیں جس سے زیادہ جھاڑ(پیداوار) لینے کے لئے جب جی چاہتا ہے جیسی بھی زہریلی دوائی ہماری رگوں اور جڑوں میں وہ اتار دیتے ہیں۔اور اپنا مقصد"پوری طرح سے"پورا کرتے ہیں۔یہاں پر سیاسیوں کی ہر کوشش،ہر پلاننگ اور دوڑ دھوپ الیکشن اور الیکشن کے نتیجہ میں ملنے والے اقتدار کی طوالت کے لئے ہوتی ہے۔الیکش ہمارے ہاں تجارت بن گیا ہے۔اپنے چمچوں اور حواریوں سے چالیس پچاس لاکھ روپے نذرانے کے طور پر خرچ کرواو الیکشن جیتو اور پھر جی بھر کے کروڑوں اربوں کماو۔اچھی بھلی گلیوں اور بازاروں کو توڑو اور از سرِ نو تعمیر کے بہانے ٹھیکہ کی مد میں اپنی جیبیں بھرو۔اسی طرح کی کمائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر محکمہ میں سیاست گھسیڑ دی گئی ہے۔حالانکہ محکموں کوچلانے کے جلئے افسران بالا موجود ہوتے ہیں اس کے باوجود بھی محکموں کے ملازمین و افسران سیاسیوں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔فرض کریں محکمہ ہیلتھ کے کسی ملازم نے ایک سے دوسری جگہ تبادلہ کروانا ہے تو یہ محکمہ کے افسران سے متعلقہ کا کام ہے،لیکن اس کے لئے بھی مقامی ایم پی اے،ایم این اے کی چاپلوسی کرنا پڑتی ہیج۔ندراصل یہ روش ہماری خرابی کی علامت ہے۔یہی روش ہمارے نظام کو ٹھیک نہیں ہونے دے رہی۔اس روش نے ملک کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ہر سال یومِ آزادی پر وطن کی شان میں کہی گئی نظمیں زبان ذد عام ہوتی ہیں۔ملی ترانے گونجتے ہیں،گونجنے بھی چاہئیں لیکن اس یوم آزادی کے پیچھے محرکات اور محرکات میں اسلاف کی تکالیف اور عظیم قربانیوں کے اصل مقصد کو ہم اور وارثانِ عوام کیوں بھول جاتے ہیں۔شکم پروری اور قبیلہ پروری پر بنیاد رکھنے والے نظام سیاست نے ملک کا جو حلیہ بنا دیا ہے۔یہاں پر رائج طرز سیاست ذاتی مفادات کی جنگ کا روپ دھار چکا ہے۔ملک کے عوام کی خوشحالی کے بجائے گویا خشک سالی کے لئے قانون سازی اور پلاننگ کی جاتی ہے۔یہاں پر تو جان بوجھ کر عوام کو مسائل سے دوچار کیا جاتا ہے۔تاکہ مسائل زدہ عوام ان سیاسی معالجوں کی"دکان"کے چکر لگاتے رہیں اور ان کا کا کاروبار چلتا رہے۔کاش کوئی عوام کا درد رکھنے والا اصلی اور مخلص مسیحا بھی سامنے آئے جو اس جنت نظیر دھرتی سے ان ابلیسوں کو نکال کرے واقعی اس نرگ کو فردوسِ بریں میں تبدیل کردے۔