عنبرین فاطمہ
ایوارڈز کی تقسیم اور ان کے معروف گیتوں پر میرا و دیگر کی پرفارمنس
میری والدہ نے والد کی تمام بیگمات سے ہمیشہ تعلق اچھا رکھا ،جب ہم بڑے ہو رہے تھے تو والد نے گھر میں فلم انڈسٹری کے لوگوں کا آنا جانا ختم کر دیا۔والد کی خواہش تھی ان کے نام کا میوزیم یا ادارہ قائم کیا جائے، ایک بار جھوٹ بولا تو والد نے پول کھول دیا: رنگیلا کی بیٹی فرح دیبا
معروف اداکارسعید علی خان عرف رنگیلا جو اس دنیا میں نہیں رہے وہ 2005ئ میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے ، ان کی بیٹی فرح دیبا جو کہ سیاست میں بھی نام رکھتی ہیں اور سوشل ورکر کی حیثیت سے کام کرتی ہیں ، انہوں نے گزشتہ دنوں اپنے والد یعنی فلمسٹار رنگیلا کو پاکستان اورسیز گلوبل کے پلیٹ فارم سے الحمرائ میں ایک ٹریبیوٹ کا اہتمام کیا۔ پر وقار تقریب میں سیدنور ، مسعود بٹ، نشو بیگم ، فلمسٹار میرا ، دردانہ رحمان و دیگر نے شرکت کی۔اس موقع پر نہ صرف فلمسٹار رنگیلا کی خدمات کو سراہا گیا بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افرادکو ایوارڈ سے نوازا گیا جن میں ایس ایم صادق ، خلیل الرحمان قمر ، ڈاکٹر وقار احمد نیاز( لائف ٹائم اچیومنٹ )،سید نور ، ڈاکٹر جاوید اکرم ہیتلھ منسٹر(لائف ٹائم اچیومنٹ) ، انٹیلجنس بیورو ، پاک فوج ، میرا ، نثار احمد ، صفیہ اسحاق ، فاطمہ دیوان ، ایجوکینسٹ سعدیہ ارشد ، ارشد بخاری (شاعری) کے نام قابل زکر ہیں۔اورسیز کامران ملک ، عزیز اللہ خان ، نثار احمد دریشام، سنگھ سارگانا اور صفیہ فاطمہ نے بھی رنگیلا کی خدمات کو سراہا۔ تقریب شروع ہوئی تو رنگیلا کے فن پر ایک مختصر سا پیکج دکھایا گیا ، اس کے علاوہ ان کے معروف گیتوں پر پرفارمنسز ہوئیں۔ فلمسٹار میرا نے بھی ان کے ایک گیت پر پرفارم کیا، سید نور نے کہا کہ رنگیلا ورسٹائل فنکار تھے اور انہوں نے یہ چیز ثابت بھی کی، ہم نے ان کو دیکھ کو بہت کچھ سیکھا۔ ان کے جانے سے جو خلائ پیدا ہوا ہے وہ کبھی بھی پْر نہیں ہو سکتا۔ مسعود بٹ نے کہا کہ ہمارے لئے تو ان کا فن مشعل راہ تھا اور ہے۔ ان کے کام کا جو انداز تھا وہ سب سے الگ تھا ان کے انداز کوبہت سارے لوگوں نے کاپی کرنے کی کوشش کی لیکن ان کو وہ کامیابی نہ مل سکی جو رنگیلا کو ملی۔ نوائے وقت نے خصوصی طور پر ان کی بیٹی فرح دیبا جنہوں نے اس تقریب کا اہتمام کیا تھا ان کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ رنگیلا کو ٹریبیوٹ پیش کرنا ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے انہوں نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے کہا کہ میرے والد نہایت ہی شفیق انسان تھے ، وہ اپنے کام میں کافی مصروف رہتے تھے جس کی وجہ سے ان کو ہمیں ملنے کا وقت کم کم ملتا تھا۔وہ ہمارے باپ تو تھے ہی لیکن استاد بھی تھے ، وہ ہمیں بتاتے تھے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے ، محنت کیا ہوتی ہے جدوجہد کیا ہوتی ہے ، جو پکی پکائی کھیر پر زندگی گزارتا ہے اس سے ملنے والی خوشی اور کامیابی عارضی ہوتی ہے۔ میرے والد نہایت ہی حساس طبیعت کے مالک تھے رحم دل تھے ، بہترین باپ تو تھے ہی بہترین شوہر بھی تھے ، انہوں نے جتنی بھی شادیاں کیں میری ماں سمیت ، سب کو اچھی زندگی دی گھر دئیے ، ضروریات پوری کیں۔ انہوں نے ہمارے لئے جو کچھ بھی کیا ہے اسکا احسان ہم کبھی بھی نہیں چکا سکتے لیکن بطور بچے ہم وہ نہیں کر سکے جو کرنا چاہیے تھا۔میرے والد کی شخصیت ان کا نام کبھی نہیں مر سکتا۔ فرح دیبا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میرے والد کی خواہش تھی کہ ان کے نام کا کوئی میوزیم یا ادارہ بنایا جائے۔ میں اس کوشش میں لگی ہوئی ہوں کہ میرے والد کی یہ خواہش پوری کر سکوں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد کے مداحوں سے کہوں گی کہ وہ جب بھی پریشان ہوں تو میرے والد کی فلمیں دیکھیں ان کے ڈائیلاگز سنیں وہ بامعنی ڈائیلاگ بولتے تھے۔ ایک دوسرے کو خوشیاں بانٹیں۔ انہوں نے ایک واقعہ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ2001 کی بات ہے کہ میں کونسلر بنی تھی ، میں نے دیکھاکہ سیاستدان گھر پر بھی ہوں تو وہ اپنے ملازموں سے کہلوا دیتے ہیں کہ ہم گھر پر نہیں ہیں، میں نے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی ایک دن کوئی مجھ سے ملنے آیا میری ملازمہ میرے پاس آئی اور بتایا کہ کوئی مجھ سے ملنے آیا ہے تو میں نے اسکو بول دیا کہ کہہ دو میں میڈم گھر پر نہیں ہیں ، میری کمبختی آئی ہوئی تھی جو ایسا کہہ دیا میرے والد نے یہ بات سن لی۔ اب جو مجھ سے ملنے آیا تھا وہ یہ سن کر چلا گیا کہ میڈم تو گھر پر ہی نہیں ہیں، میرے والد اس کے پیچھے گئے اس کو روکا اور پوچھا کہ کیا کام تھا ، اس نے کہا کہ میں پریشان ہوں فلاں وجہ سے ، اس پر میرے باپ نے کہا کہ میری بیٹی نے جھوٹ بولا ہے وہ گھر پر ہی ہے، میں بہت شرمندہ ہوئی اس شخص سے بھی اور اپنے والد سے بھی ، میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ فورا اس آدمی کا کام کرو اور آئندہ یہ حرکت نہ کرنا یوں یہ چیز میرے لئے سبق تھی۔میں نے اس کے بعد دوبارہ کبھی یہ حرکت نہیں کی اور جتنا ہو سکے دوسروں کی مدد کرتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سوشل ورک میں کچھ نہیں تو پچیس سال ہو گئے ہیں اور انسانیت کی خدمت میں نے والد سے ہی سیکھی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں شوبز انڈسٹری جوائن کرنے کی اجازت تھی نہ ہی ہماری ایسی کوئی چاہت تھی کہ ہم شوبز کا حصہ بنیں۔ میرے والد کہا کرتے تھے کہ بچے کی دماغی نشوونما کی ایک عمر ہوتی ہے اور اس دوران والدین جو تربیت کرتے ہیں بچہ اسی حساب سے اپنی باقی کی ساری زندگی گزارتا ہے۔ میرے والد نے جب دیکھا کہ میرے بچے بڑے ہو رہے ہیں اور انڈسٹری کے لوگ گھر آتے جاتے ہیں یہ بات مناسب نہیں تو انہوں نے فلم انڈسٹری کے لوگوں کا گھر میں آنا جا نا بند کر دیا اور ہمارے گھر میں جو شوٹنگز ہوا کرتی تھیں اس سلسلے کو بھی روک دیا۔ انہوں نے کہاکہ اس کے بعد پھر ہم نے فلم انڈسٹری کے لوگوں کو اپنے گھر میں نہیں دیکھا۔ فرح دیبا نے کہا کہ میرے والد ٹرائبل ایریا سے تھے اور وہاں کے لوگ عموما صرف پٹھانوں میں ہی شادیاں کرتے ہیں میرے والد نے تین شادیاں کیں لیکن اپنی ہر بیوی کو اس کا حق دیا اگر ایک کو کنالوں پر مشتمل گھر دیا تو دوسری کو بھی دیا۔ فرح دیبا نے کہا کہ میرے والد نے بے شک تین شادیاں کی تھیں لیکن میری والدہ نے ہماری ایسی تربیت نہیں کی تھی کہ ہم اپنے والد کے سامنے کھڑے ہوجاتے ان سے پوچھتے کہ بھئی ہماری ماں کے ہوتے ہوئے آپ نے دوسری ، تیسری شادی کیوں کی۔ ہم نے کبھی والد سے سوال نہیں کیا تھا ان کی شادیوں کے حوالے سے۔شاید لوگ یقین نہ کریں لیکن میری والدہ نے میرے والد کی دوسری بیگمات کا بہت خیال رکھا ان کے ساتھ ہمیشہ شفقت سے پیش آئیں۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ میرے والد کی شخصیت ایسی ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی میں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں۔ رنگیلا ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتے تھے۔ میرے والد ایک مجاہد انسان تھے انہوں نے ہمیں سکھایا کہ اس زندگی کو جینے کا مقصد کیا ہے ، دنیا میں اگر آئے ہیں تو کچھ کر کے جائیں ، میرے والد ایک کامیاب زندگی بسر کرکے گئے۔ آج ہر طرف ظلم و ستم ہو رہا ہے ، قتل و غارت ہو رہا ہے لیکن کوئی خوشیاں نہیں بانٹ رہا۔ ایک دوسرے سے محبت کریں ، سہارا بنیں اور اگر کسی کی مدد کر سکتے ہیں تو لازمی کریں اللہ تعالی یقینا آسانیاں فرمائیں گے۔
فلمسٹار رنگیلا کی فنی خدمات کے اعتراف میں ٹریبیوٹ کا اہتمام
Aug 08, 2023