حیرت ہے کہ اس مرتبہ عاشورہ محرم کے موقعہ پر ڈبل سواری پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ پھر موبائل فون کی سروس بھی جاری رہی۔ اب تو کسی کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ پابندیاں کب سے شروع کی گئی تھیں۔ اتنا ہی ہضم کرنا آسان نہیں کہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انوراور بھی بہت کچھ بتا رہے ہیں۔ ان کے مطابق کچے کا 60ہزار ایکڑ رقبہ کلیئر کروالیا گیا ہے۔کچے کے علاقے پر حکومت پاکستان کی عملداری نہیں تھی۔ وہاں ڈاکو راج تھا جو ،اب نہیں رہا۔انہوں نے مزید بتایا کہ 12خطرناک ڈاکو ہلاک ، 51گرفتار کر لئے گئے۔ 26ڈاکوئوں نے خود کوپولیس کے ہاتھوں سرنڈر کروالیا۔ڈاکوئوں کے چنگل سے 50مغوی بھی چھڑالئے گئے۔اب وہاں 40چوکیاں بنائی گئی ہیں۔ کچھ تعلیمی ادارے بھی جو اگرچہ پولیس کا کام نہیں۔آئی جی پنجاب کے اخبارات میں نمایاں شائع ہونے والے اس بیان پر کالم نگار سوچ رہا ہے ، کیا اس ملک میں صرف کچے کے ہی ڈاکو ہیں ؟
اس ملک میں مڈل کلاس طبقے پر ہر ماہ بجلی گرتی ہے۔ یہ بجلی، بجلی کے بل ہیں جنہیں وصول کرنا اور پھر پڑھنا پیغام مرگ کے برابر ہے۔ لیکن عوام کے لئے یہ خبر بھی پیغام مرگ سے کچھ کم نہیں کہ سینیٹر مشتاق احمد خاں کے ایک سوال کے جواب میں حکومت نے جواب دیا کہ سرکاری اداروں کے 189000 افسروں نے صرف ایک برس میں آٹھ ارب انیس کروڑ کی بجلی مفت استعمال کی ہے۔ پھر مفت کی بجلی سے چلائے گئے ایئر کنڈیشنروں میں ٹھنڈک بھی قدرے زیادہ ہوتی ہے۔ ظفر اقبال نے اپنے شعر میں شاید یہی حقیقت سمجھانے کی کوشش کی ہے :
محبت تو چوری کا گْڑ ہے ظفر
یہ میٹھا زیادہ توہونا ہی تھا
جنرل ایوب خاں نے اقتدار چھوڑنے کے بعد ایک اخبار ی انٹر ویو میں بتایا کہ میرا معیار زندگی گوجرانوالہ کے صنعتکاروں جیسا بھی نہیں۔ گوجرانوالہ کے صنعتکاروں کو چوکھا رنگ روپ اپنے کارخانوں میں سوئی گیس کے استعمال سے چڑھاہے۔دیہاتی علاقوں میں پانی چوری اور شہری علاقوں میں گیس چوری ، کوئی غیر شریفانہ جرائم ہی نہیں سمجھے جاتے۔ دونوں زراعت اور صنعت کا ایک حصہ ہی تصور ہوتے ہیں۔ کل کالم نگار حیران رہ گیا جب اسے گوجرانوالہ کے ایک ممتاز صنعتکار نے بتایا کہ وہ مقامی ڈپٹی کمشنر سے ملاقات میں اس کا قیمتی برانڈڈ جوتا ہی رشک سے تکتا رہا۔ شاید افسروں کے عہدوں کے ساتھ ’’صاحب بہادر‘‘لکھنے کا پرانا دور لوٹ آیا ہے۔ محمد صالح عباد نے اپنی کتاب ’’سلطنت عثمانیہ کا زوال‘‘میں کسی ریاست کی تباہی میں وہاں کی نوکری شاہی کے اللے تللوں کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
چینی 100 روپے سے 150روپے کلو تک پہنچ گئی ہے۔ کیا یہ پونے دوسو، دو سو روپے تک پہنچ کر ہی دم لے گی؟ کیا ہمارے بچے گولی ٹافی سے محروم ہو جائیں گے ؟ کالم نگار کو ایک مرتبہ بزرگ سیاسی رہنما جاوید ہاشمی نے بتایا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں کم عمر ترین وزیر تھے۔ اک روز ملک کا معروف صنعتکار سیٹھ احمد دائود انہیں ملنے آیا۔ اس نے 28سالہ نوجوان جاوید ہاشمی کوپیشکش کی کہ وہ جنرل ضیاء الحق سے شوگر مل لگانے کا پرمٹ حاصل کر لیں ، دونوں مل جل کر مِل لگا لیتے ہیں۔زمین آپ کے پاس موجود ہے۔ باقی سرمایہ وغیرہ کا بندوبست ہو جائیگا۔اس نے انہیں خبردار کیا کہ آئندہ سیاست شوگر ملزمالکان کے ارد گرد ہی گھوما پھرا کرے گی۔یہ گْر کی بات تب نوجوان جاوید ہاشمی کی سمجھ میں نہ آئی تھی۔ آج پاکستان کی سیاست کو بھی ملتان کے مضافات سے بزرگ سیاستدان جاوید ہاشمی کی کوئی سمجھ نہیں آرہی۔
ہندوستان سے خشونت سنگھ نے فیض احمد فیض کا یوں ذکر کیا۔ ’’اللہ کے وجود کو نہ ماننے کے باوجود ان سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والے انسان کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ لیکن اللہ کو ماننے والے ؟شہر گوجرانوالہ کے وسط میں ایک کھجور منڈی ہے۔ شہر کی کپڑے کی سب سے بڑی تھوک منڈی۔یہاں کروڑوں اربوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ یہ مارکیٹ مقامی میونسپل کارپوریشن کی ملکیت ہے۔ گوجرانوالہ کا ہر شہری ان دکانوں کی ملکیت میں حصہ دار ہے۔ وہ شہری بھی جو اپنے علاج معالجے کی سکت نہیں رکھتے۔ پیٹ بھر کر کھانا جنکے نصیب نہیں۔ جو بچوں کو اسکول بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ جو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کی بجائے انہیں مزدوری کرنے بھجوانے پر مجبور ہیں۔ ان ایک سو سے زیادہ دکانوں کا کرایہ فی دکان پانچ دس لاکھ روپے ماہوار سے کم نہیں ہونا چاہئے لیکن کوئی دکاندار بھی دس ہزار روپے ماہوار ادا نہیں کر رہا۔ ان ’’حاجی نمازی‘‘کرایہ داروں نے کبھی نہیں سوچا کہ یہ کن غریب ، محتاج اور مستحق لوگوں کا حق کھا رہے ہیں۔
اپنے رزاق کی حمد پڑھتی ہوئی
چیل چڑیا کا بچہ اٹھا لے گئی
ایک’’ خوش اخلاق‘‘ صنعتکار کے باعث گوجرانوالہ میں چڑیا گھر کی تعمیر بھی رکی ہوئی ہے۔ وہ غریب غرباء جو اپنے بچوں کو لاہور چڑیا گھر تک لیجانے کے وسائل سے محروم ہیں ، ان کی صحت اور سلامتی کیلئے دعا گو ہیں۔
اہم سیاستدان شرجیل میمن بحریہ ٹا?ن کی گیارہ ہزار ایکڑ کی غیر قانونی الاٹمنٹ کے مقدمہ میں برسوں سے برضمانت ہیں۔ ان کی عمر مختصر برضمانت ہی گزر جائیگی۔ بینظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان مشہور زمانہ این آر او ہوا۔ اس کے نتیجہ میں 4038افراد کے خلاف کرپشن کے مقدمات ختم کئے گئے۔ جسٹس افتخار کا سو موٹو جاگ اٹھا۔ این آر او غیر قانونی قرار پایا۔ اب کوئی نہیں جانتا کہ ان 4038 افراد کے خلاف کرپشن کے مقدمات کا کیا بنا ہے ؟ کوئی جانتا ہو تو بتا دے۔ کالم نگار کے اِرد گرد لاعلمی کے سناٹوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔
پٹرول کی قیمت میں اضافہ ظاہر کر رہا ہے کہ سرکار دربار میں جلد الیکشن کا کوئی پروگرام نہیں۔ اِدھر اقتدار کیلئے قبولیت ہمیشہ مقبولیت سے اہم تر رہی ہے۔آج مقبولیت وہ لئے پھرتے ہیں جو سرکار کو قبول نہیں۔تو پھر الیکشن کیسے ہو سکتے ہیں ؟