پاکستان اورافغانستان میں بڑھتی کشیدگی 

Aug 08, 2023

محمد اصغر

 نومبر 2022ء میں حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کیی خاتمے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے پاکستان پر حملوں میں ا ضافہ ہوا ہے۔12جولائی کو بلوچستان کے شہرڑوب میں آرمی گیریڑن پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا، جس میں نو فوجی شہید ہوئے۔ اسی دن سوئی میں ایک حملے میں مزید تین فوجی شہیدہوئے۔ان واقعات کے بعدایک بار پھر پاکستان نے کابل میں طالبان حکام کو کالعدم ٹی ٹی پی کے سرحد پار سے کیے جانے والے حملوں کے نتائج پر متنبہ کیا۔ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے پاکستانی فوج اور حکومتی رہنماوں نے انتہائی سخت الفاظ میں اپنے بیانات میں کابل سے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال نہ ہومگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنا دائرہ کا خیبرپختونخوا کے بعد صوبہ بلوچستان میں پھیلا دیا۔
گزشتہ ہفتے پاکستان نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کومحفوظ پناہ گاہوں اور وہاں سے پاکستان پر حملوں کی آزادی پر سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کوئٹہ کے دورے میں بیان دیا جس میں افغان عبوری حکومت سے دوحہ امن معاہدے (2020 ) میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر حملے جاری رہے تو ملک کی سیکورٹی فورسز کی طرف سے "موثر جواب" دیا جائے گا۔ گزشتہ پیر کو کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلانیہ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں اور جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی کو پاکستان کی سلامتی کو متاثر کرنے والی بڑی وجوہات کے طور پر نوٹ کیاگیا ہے"۔وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمدآصف نے بھی کابل پر اپنے وعدوں کی پاسداری میں ناکام ہونے کا الزام لگایا اور کہا کہ "افغانستان نہ تو پڑوسی ملک کے طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشتگردوں کو افغان سرزمین پر پناہ ملتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان جواب میں تمام ممکنہ وسائل اور اقدامات بروئے کار لائے گا"۔
مئی 2023ء میں وفاقی وزارت دفاع کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کابل انتظامیہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں اسکے دوبارہ منظم ہونے سے پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ پیدا ہوا ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی رپورٹس کے مطابق بھی طالبان کیکابل پر کنٹرول کا افغانستان میں سب سے زیادہ فائدہ کالعدم ٹی ٹی پی نے اٹھایا ہے۔ بلاشبہ پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان قلیل مدتی جنگ بندی ایک ناکام کوشش تھی۔ لیکن اسکے بعد کالعدم ٹی ٹی پی نے سب سے بڑا خودکش حملہ دسمبر 2022ء میں پولیس لائنز پشاور کی ایک مسجد پر کیا جس میں 100 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ اس وا قعہ نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ چنانچہ پاکستان حکومت نے طالبان حکام کے ساتھ مذاکرات کیے اورسخت وارننگ جاری کی گئی۔ ان مذاکرات میں طالبان رہنماوں نے پہلی مرتبہ اپنے ملک میں کالعدم ٹی ٹی پی کی موجودگی کو تسلیم کیا اورحملے روکنے کے لئے یقین دہانیاں کرائیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ جس کے بعدفروری 2023ء میں ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد ایک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ کابل بھیجا تاکہ طالبان حکومت کو افغان سرزمین سے دہشت گردی کے حملوں پر پاکستان پر دہشت گردانہ کاروائیوں کے نتا ئج سے آگاہ کرنا اور کالعدم ٹی ٹی پی کو لگام ڈالنے اور اس کی پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے کابل انتظامیہ پر زور دینا تھالیکن ان مذاکرات میں الٹا طالبان حکومت نے حکومت پاکستان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے پانچ ہزار جنگجووں اور ان کے خاندانوں کو غیر مسلح کرنے اور ان کی دوبارہ آباد کاری کے لیے مالی امداد کی درخواست کردی اورکالعدم ٹی ٹی پی کے مطالبات بھی پیش کر دئیے کہ پاکستان اپنے قبائلی علاقوں سے فوجی دستوں کا انخلاکرے،فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ادغام کا فیصلہ واپس لے ا ور خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں شریعت کا نفاذ کرے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اگرافغان طالبان، کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کرنا چاہیے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی مستقل حل نہیں کیونکہ جوابی کاروائیوں میں خطرات اور خرابیاں ہوتی ہیں۔ پاکستان کو ایک ایسی پالیسی مرتب کرنا چایئے جس میں کئی ترغیبات بھی شامل ہوں تاکہ افغان طالبان رہنماؤں کو قائل اور متحرک کیا جا سکے اگرچہ سب شراکت داروں کے مفادات مختلف النوع ہیں لیکن چین، روس، ایران، ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے ساتھ مل کر ایک مربوط علاقائی سلامتی کیلئے حکمت عملی بھی تیار کرنی چاہیے تاکہ کابل پر اجتماعی دبائو بڑھایا جا سکے۔
پاکستان کی موجودہ افغان پالیسی پر نظرثانی کی بھی ضرورت ہے۔ تعاون اور عدم تعاون کی قیمت بڑھانے پر ضرورغور کیا جانا چاہیے لیکن دونوں ملکوں کی سلامتی اور معاشی مفادات کو زیادہ موثر طریقے سے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔جماعت اسلامی سمیت تمام پاکستان کی سیاسی جماعتیں حکومتِ پاکستان اور امارتِ اسلامی افغانستان پر زور دیں کہ وہ پرامن بقائے باہمی، اسلامی اخوت وبھائی چاریاوراقتصادی وعلاقائی مفادات کی خاطر نرم لب و لہجہ اختیار کریں اور افہام و تفہیم کے ساتھ علاقائی سلامتی اور اَمن کو برقرار رکھنے کیلئے زیادہ سے زیادہ بات چیت کے مواقع پیداکریں۔

مزیدخبریں