عثمان بزدار کا مشکل وقت، صمصام بخاری ، شفقت محمود کی تعریف اور افسوسناک ٹرین حادثہ؟؟؟

استحکام پاکستان پارٹی کی قیادت نے سابق وزیر اعلٰی پنجاب عثمان بزدار اور پی ٹی آئی چیئرمین کی اہلیہ بشری بی بی کی قریبی دوست فرح بی بی کی گرفتاری تک پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ہونے والی کرپشن کی تہہ تک پہنچنے کو مشکل قرار دیا ہے۔ آئی پی پی کے سربراہ جہانگیرترین اور علیم خان نے کہا ہے کہ "جب تک بزدار اور فرح گوگی نہیں پکڑے جاتے تب تک کرپشن کا سرا نہیں ملے گا۔"
عثمان بزدار اور فرح بی بی کے جوڑے پر گذرے کئی ماہ سے بات چیت ہو رہی ہے۔ مختلف سیاسی حلقوں سے ان دونوں کے مبینہ طور پر ہونے والی کرپشن میں اہم کرداروں کے طور پر ذکر ہو رہا ہے۔ عثمان بزدار تو عمران خان کے وسیم اکرم پلس تھے جو کہ اب مائنس ہو چکے ہیں اور پی ٹی آئی انہیں جماعت سے نکال چکی ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد عمران خان انتخابی سیاست سے نکل چکے ہیں تو سائیں بزدار جماعت سے نکل چکے ہیں اور فرح بی بی کو سب سے پہلے پاکستان سے بھاگنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔ لوگ ایسے ہی کہتے ہیں کہ خان کو سمجھ دیر سے آتی ہے درحقیقت اپنے مطلب کی سمجھ خان کو سب سے پہلے آتی ہے یہی وجہ ہے فرح بی بی کو سب سے پہلے بیرون ملک بھیجا گیا تھا جہاں تک تعلق سائیں بزدار کا ہے اور جس خطے سے وہ تعلق رکھتے ہیں وہاں کے سیاست دان کپڑے بدلنے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ سیاسی وفاداریاں بدلنے میں شہرت رکھتے ہیں اور سائیں بزدار بھی سیاسی وفاداری تو بدل چکے ہیں اب شاید وہ کسی مناسب "ڈیل" کا انتظار کر رہے ہیں کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ تکلیف کم ہو زیادہ دیر تک سختیاں برداشت نہ کرنا پڑیں اور جو کچھ ان کے دور میں ہوا وہ خود کرتے رہے یا ان کے فرنٹ میں کرتے رہے وہ اپنے لیے کرتے رہے یا کسی اور کی خدمت کرتے رہے وہ سب کچھ سائیں بزدار ایسے ترنم کے ساتھ تحقیقی و تفتیشی اداروں اور افسران کے سامنے رکھیں گے کہ سننے والے لطف اندوز بھی ہوں گے اور انہیں گواہی بھی مل جائے گی کہ جو ان کچھ ان کے پاس کاغذات کی شکل میں موجود ہے وہ حقائق پر مبنی ہے اور سب سے قریبی شخص اعتراف کر رہا ہے کہ فلاں کام کے دستخط کس کے کہنے پر کس کے لیے کیے ہیں اور فلاں فائل میرے اپنے لیے تھی، فلاں فائل کا حکم فلاں جگہ سے آیا تھا اور فلاں میں نے اپنے حلقے کے نام پر جاری کروا لی۔ اسی طریقے سے فرح بی بی نے بھی بولنا ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ وہ بھی بہت کچھ تو بتا چکی ہیں جو بچ گیا ہے وہ بھی بتائیں گی اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ وعدہ معاف گواہی ان کی طرف سے بھی آنے کے اتنے ہی امکانات ہیں جتنے سائیں بزدار کے ہیں۔ چونکہ بہت ساری چیزوں کے تحریری ثبوت موجد ہوں گے اس کیے جھٹلانا ذرا مشکل ہو گا۔ ویسے بھی ان کے لیے جیل کی سختیاں برداشت کرنا ذرا مشکل ہی ہو گا۔ جہاں تک تعلق استحکام پاکستان پارٹی کی قیادت کا ہے انہوں نے ٹھیک نشاندہی کی ہے کہ جب تک ان دونوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا اس وقت تک کرپشن کے اصل ذمہ داروں تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ یہ دونوں بھی بیک وقت کسی اور کے چہرے تھے ڈوریں تو کوئی اور ہلا رہا تھا لیکن انہوں نے اس دوران اپنے لیے بھی کچھ نہ کچھ تو ضرور کیا ہے۔ بنیادی طور پر کرپشن تو کوئی بھی کرے اس کے ساتھ رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے ادارے کرپشن کا گڑھ بن چکے ہیں جب کوئی حکومت میں ہوتا ہے وہ ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ ہر طریقے سے مال بنانے کی کوشش کرتا ہے جو حکم ملتا ہے افسران اس کی تعمیل کرتے ہیں بہت کم ہوتے ہیں جو نشاندہی کرتے ہیں یا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو کوشش کرتے ہیں اہم عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اگر آئی ایس آئی کا سربراہ بھی نشاندہی کرے تو وزیراعظم اسے بھی عہدے سے ہٹا دیتا ہے ان حالات میں کرپشن روکنے کی کمٹ کوئی افسر کیسے کر سکتا ہے جو یہ جرات کرتا ہے اسے کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے۔ آج بھی اگر ایمانداری سے محکموں کا آڈٹ ہو تو انکھیں کھلی رہ جائیں گی کہ آخر ملک کو کیسے لوٹا جا رہا ہے۔ اگر عثمان بزدار اور فرح بی بی کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں تو پھر انہیں جلد از جلد پکڑنا چاہیے اور اس طرز کے تمام مقدمات کو لٹکانے کے بجائے کم وقت میں منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔ ایسے مقدمات کو لٹکانے سے ناصرف ملزمان کو موقع ملتا ہے بلکہ بدعنوانی میں شامل افراد خود کو بچانے کے لیے نت نئے راستے نکالنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک سچ کا تعلق ہے تو یہ ہم صرف دوسروں کے بارے بولتے ہیں۔ ہر شخص دوسروں کے بارے بولنا چاہتا ہے کاش ہم بحیثیت قوم جھوٹ کا بائیکاٹ کریں نوے فیصد سے زیادہ مسائل اس برائی کو ترک کرنے سے ختم ہو سکتے ہیں لیکن ہم میں سے کوئی بھی جھوٹ ترک کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہر شخص ہر وقت کسی نہ کسی انداز میں جھوٹ بول رہا ہے غلط بیانی کر رہا ہے غلطی کو چھپانے اور خود کو بچانے کے لیے جھوٹ کا سہارا ہے عدالتوں میں جتنے بھی مقدمات ہیں اگر ملزمان سو فیصد سچ بولیں تو کسی بھی کیس کا فیصلہ ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے ہم عدالتی نظام کو برا کہتے ہیں لیکن ہم خود کو برا بھلا نہیں کہتے جو اس نظام کو تباہ کرنے کے لیے ہر وقت جھوٹ کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ سائیں عثمان بزدار کو تو چاہیے کہ کم از کم پورا سچ بولیں اور جو لوگ بھی ان کے نام پر کام۔کرتے رہے یا جن کے کہنے پر وہ خود کام کرتے رہے جو انہوں نے دوسروں کے لیے کیا اور جو کچھ انہوں نے اپنے لیے کیا سب کچھ صاف صاف تفتیشی اداروں کے سامنے رکھنا چاہیے تاکہ ایک دو سماعتوں میں کام مکمل ہو اور ادارے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے دیگر افراد کی طرف بڑھ سکیں۔ 
خبر یہ بھی ہے کہ نو مئی کے دلخراش اور افسوسناک واقعات میں شفقت محمود اور صمصام بخاری نے علیحدگی اختیار کی۔ وزیراعظم کے مشیر عطاءتارڑ پی ٹی آئی کے دونوں سیاست دانوں کے کردار کی تعریف کی ہے۔ وہ کہتے ہیں "آڈیو میں صمصام بخاری نے بتایا کہ کور کمیٹی میں فیصلہ ہوا کہ احتجاج فوج کے خلاف ہو گا، ثابت ہو گیا کہ سانحہ 9 مئی ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا، شفقت محمود اور صمصام بخاری کو نو مئی کا حصہ نہ بننے پر سلام پیش کرتے ہیں۔" جو لوگ اس تخریب کاری کا حصہ نہیں بنے یقینا انہوں نے بروقت اور درست فیصلہ کیا لیکن بہت سے اچھے اور سلجھے ہوئے افراد بھی سب کچھ جانتے ہوئے مقبول بیانیے کے ساتھ بہہ گئے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جیسے جیسے وقت گذر رہا ہے سب کے نام بھی سامنے آ رہے ہیں اور کرداروں کا حصہ بجہ کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ یقینا یہ لوگ منطقی انجام تک پہنچیں گے۔ پرویز خٹک کے بیانات کو سن لیں کیا یہ سب عمران خان کے ساتھ نہیں تھے۔ سب لوگوں نے عمران خان کا ساتھ دیا اور آج اکثریت یہ کہہ رہی ہے کہ عمران خان مشاورت نہیں کرتے تھے، کسی کی بات نہیں سنتے تھے وہ خود پسندی کے مرض میں مبتلا تھے جب میں ان سیاست دانوں کے بیانات سنتا ہوں تو یہ تسلی ضرور رہتی ہے کہ یہ سب باتیں میں بالخصوص دو ہزار انیس، دو ہزار بیس سے لکھ رہا ہوں۔ سیاست دانوں کی اکثریت عمران خان کے ساتھ رہی اور پی ٹی آئی چیئرمین خود پسندی کا شکار ہو کر ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں سے سیاسی طور پر انکی واپسی بہت مشکل دکھائی دیتی ہے۔ وہ حکومت میں تھے تو غلطیاں کرتے رہے اور حکومت سے نکلے تو بڑی غلطیاں کرتے چلے گئے انہوں نے اصلاح کے بجائے مزید غلطیاں کیں اور مفاہمت کے بجائے شدت پسندی کا راستہ اختیار کیا اس ضد، تکبر اور شدت کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے نوجوان نسل کے ذہنوں میں منفی خیالات بھرے ہیں انہیں بہتر بنانے میں وقت لگے گا۔ اس اثر کو زائل صرف اور صرف تعمیر و ترقی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تعمیر و ترقی پر توجہ دے۔ وسائل نوجوانوں پر خرچ کرے، لوگوں کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرے۔ جب تک زندگی میں کشش باقی نہ رہے اس وقت تک عام آدمی کو کچھ اچھا نہیں لگے گا۔
پاکستان میں ٹرین حادثے کوئی نئی بات نہیں یہ ہمارے ہاں معمول ہے۔ اکثر اوقات ٹرین پر سفر کرنے والوں کا آخری سفر ہی ثابت ہوتا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ حالات نہیں بدلے ایک مرتبہ پھر ٹرین حادثے میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے یقینا اس مرتبہ بھی کچھ نہیں ہو گا۔ صرف ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ تحقیقات ہوں گی اور پھر کیس بند ہو جائے گا۔حادثے میں ٹرین کی دس بوگیاں پٹری سے اتر گئی تھیں جس کے نتیجے میں تیس افراد جاں بحق اور اسی سے زائد زخمی ہوئے تھے ہزارہ ایکسپریس کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حادثے کی جگہ لائن کو جوڑنے والی فش پلیٹس مسنگ تھیں، انجنئیرنگ اور مکینیکل انجینئرنگ کے شعبےکی ذمہ داری بھی بنتی ہے، ٹوٹی پٹری کی جگہ لکڑی کا ٹکڑا لگایا گیا تھا۔ حادثے کا شکار ٹرین کے انجن کے ویل بھی خراب تھے تاہم تخریب کاری کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تحقیقات کرنے والی کمیٹی میں اس حوالے سے اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔
آخر میں عبدالحمید عدم کا کلام
جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں
دیکھنے والا اک نہیں ملتا
آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں
جن کو دولت حقیر لگتی ہے
اف! وہ کتنے امیر ہوتے ہیں
جن کو قدرت نے حسن بخشا ہو
قدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیں
زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں
وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں
پھول دامن میں چند رکھ لیجے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں
ہے خوشی بھی عجیب شے لیکن
غم بڑے دل پذیر ہوتے ہیں
اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

ای پیپر دی نیشن