معافی کی کوئی شرط نہیں، معافی غیر مشروط ہی ہوتی ہے، شرطوں پر معافی کہاں ملتی ہے، شرطوں پر معافی کون قبول کرتا ہے۔ بہرحال غلطی کا احساس اور غلطی مان لینے کے بعد اصلاحی پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کن کن معاملات میں معافی ہو سکتی ہے اور کن معاملات میں کسی جرم کے بعد سزا ہونا لازم ہے۔ کسی بھی معاملے میں اس کا تعین ہونا ضروری ہے۔ بہرحال یہ لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے نو مئی کے واقعات پر مشروط معافی مانگنے کا اعلان کیا ہے۔ جب بانی پی ٹی آئی کا یہ بیان پڑھا تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں تو عرصے سے لکھتا آ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی قیادت بروقت اور بہتر فیصلوں کی صلاحیت سے محروم ہے۔ یہ ہمیشہ لکیر پیٹتے ہیں، جب وقت گذر جاتا ہے انہیں ہوش آتا ہے، جب نقصان ہو جاتا ہے تب انہیں احساس ہوتا ہے، جب پانی سر سے گذر جاتا ہے یہ سوچتے ہیں اوہ ہو بہت دیر ہو گئی لیکن اس وقت تک یہ اتنا نقصان کر چکے ہوتے ہیں کہ ازالے کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی مشروط معافی کا معاملہ بھی ایسے ہی ہے یعنی اب وہ مشروط معافی کا کہیں گے اور ان کے فیصلوں کی تاریخ کو دیکھا جائے جو تو کچھ وقت گذرنے کے بعد یہ غیر مشروط معافی کا راستہ اختیار کریں گے۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ پی ٹی آئی کی تاریخ یہی بتاتی ہے جیسے سابق وفاقی وزیر شفقت محمود ان دنوں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ دینے کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں، جیسے بانی پی ٹی آئی نے امریکی سازش کے بیانیے کو کچھ وقت گذرنے کے بعد خود ہی ختم کیا، جیسے پی ٹی آئی نے یہ شور کیا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے لیکن بعد میں گئے، جیسے حکومت میں ہوتے ہوئے امپورٹ ایکسپورٹ پالیسی تھی، جیسے مہنگائی کے معاملے میں نوٹس، جیسے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سمیت درجنوں ایسے فیصلے ہیں جہاں پی ٹی آئی قیادت کو بعد میں خیال آیا کہ اوہ یہ فیصلہ تو نہیں کرنا چاہیے تھا۔
بہرحال اب حالات کچھ یوں ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمرا ن خان نے نو مئی پر مشروط معافی مانگنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے نو مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیجز لائی جائیں۔ پی ٹی آئی کے لوگ نو مئی واقعات میں ملوث پائے گئے تو معافی مانگوں گا، ان کو پارٹی سے نکالوں گا اور سزا بھی دلواوں گا۔ عمران خان سے پوچھا گیا کہ نو مئی کو آپکے لوگوں کے ہاتھوں میں پیٹرول بم دیکھے گئے، بانی پی ٹی آئی نے صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ زمان پارک لاہور میں پیٹرول بم استعمال کیے اور کہیں نہیں، اگر کوئی عہدیدار حساس عمارتوں پر پیٹرول بم پھینکنے میں ملوث ہے تو اسے سزا دی جائے۔
آج وہ دفاعی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ موجودہ سیاسی قیادت کو مسلط کیا گیا ہے لیکن دو ہزار اٹھارہ میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت بارے بھی یہی کہا گیا تھا کہ وہ کسی کی طرف سے مسلط ہوئی ہے۔ اس لیے سیاسی بیان بازی کے بجائے سیاسی جماعتیں قومی معاملات پر متحد ہو کر آگے بڑھیں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ آج تک نو مئی بارے سوچ کچھ اور تھی آج کچھ اور ہے تو اس کا ایک مطلب یہ ہے اگر غلطی ہوئی ہے تو اسے جزوی طور پر تسلیم کرنے میں پندرہ مہینے لگ گئے ہیں۔ کیا کسی نے یہ سوچا ہے کہ اس دوران ملک کو کتنا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، اگر کسی کو رینجرز کے گھسیٹنے کا دکھ ہے تو اس ملک کے عام آدمی کو روزانہ گھسیٹا جاتا ہے، لوگ سسک رہے ہیں، بجلی کے بلوں اور مہنگائی نے سانس لینے کا حق بھی چھین لیا ہے، پولیس اہلکاروں پر تشدد ہوتا رہا ان کا کیا قصور تھا وہ تو اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے، شہداء کی بے حرمتی کی گئی، شہداء کے خلاف منظم مہم چلائی گئی، کیا ملک و قوم کے لیے قیمتی جانیں قربان کرنے والوں کو دکھ نہیں پہنچا۔ یہ باتیں تکلیف دہ ہیں لیکن دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہوئے کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ وقت کا پہیہ کسی بھی طرف گھوم سکتا ہے۔
میں نو مئی سے آج تک یہ لکھتا آ رہا ہوں کہ نو مئی کو بغاوت ہوئی اور اس بغاوت کا حصہ بننے والے قومی مجرم ہیں ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے لیکن کسی کے ساتھ ناانصافی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے اگر اس ملک کے نوجوانوں کے معصوم ذہنوں میں نفرت بھری ہے تو اس کا نقصان صرف مخالف سیاسی جماعتوں کو نہیں ہونا یہ ملک کا نقصان ہے۔ عوامی طاقت کا درست استعمال بھی ایک فن ہے اور بدقسمتی ہے کہ پی ٹی آئی قیادت عوامی حمایت کے ذریعے ملک میں تبدیلی کا ایک بہترین موقع ضائع کیا ہے۔ کسی نے روکا نہیں تھا کہ آپ ملک میں معاشی اصلاحات نہ کرتے، آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی نہ کرتے، سمگلنگ روکنے کے لیے کام نہ کرتے، کسی نے روکا نہیں تھا کہ زراعت کی ترقی کے لیے کام کرتے، اداروں نے پی ٹی آئی کو بہت سپورٹ کیا، یہ حمایت اور تعاون ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں تھا کیا پی ٹی آئی نے اس حمایت اور تعاون سے فائدہ اٹھایا اس کا جواب نفی میں ہے۔ الٹا اس حمایت کے جواب میں انہوں نے اپنی ناکامی کا ملبہ اداروں پر ڈال کو خود کو مظلوم، معصوم و بے بس ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دی اور یہ کوشش آج بھی جاری ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے یہی حرکت شیخ مجیب الرحمٰن کی ویڈیو پوسٹ کر کے کی گئی تھی۔ کیا ہمیں اپنی سیاست کے لیے اتنا بے رحم ہو جانا چاہیے، ایسا نہیں ہونا چاہیے لیکن اقتدار کا نشہ اتنا برا ہے کہ انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ ملک و قوم کے نام پر ووٹ لینے والے ایوان اقتدار میں پہنچنے کے بعد سب سے پہلے ملک اور قوم کو بھولتے ہیں۔
آج بہت سارے لوگ پاکستان کے حکمرانوں کو بنگلہ دیش کی مثالیں دے رہے ہیں حالانکہ دونوں کا کوئی موازنہ نہیں ہے، وہاں حالات کچھ اور یہاں کچھ اور ہیں، ہمیں کسی بھی ملک میں حکومت کی تبدیلی سے سبق سیکھنے کے بجائے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اگر ہم اپنی غلطیوں سے سیکھنا شروع کر دیں تو ہمیں لوگوں کی مثالیں دینے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ جہاں تک تعلق بانی پی ٹی آئی کی معافی کا ہے اس سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ سیاسی معاملات میں سیاسی راستہ اور قانونی معاملات میں قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ویسے بانی پی ٹی آئی نے اپنی صوبائی حکومت کو حکومتی اجازت کے بغیر جلسہ نہ کرنے کا اچھا پیغام دیا ہے ۔
آئی پی پیز پر بہت باتیں ہو رہی ہیں، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی بات چیت کی ہے جب کہ آئی پی پیز کمپنیوں کے ملازمین کو اربوں کی مفت بجلی اور وفاقی وزیر توانائی نے بھی اہم باتیں کی ہیں اس پر آئندہ لکھوں گا۔
آخر میں ساحر لدھیانوی کا کلام
یہ محلوں ، یہ تختوں ، یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟
ہر اک جسم گھائل ، ہر اک روح پیاسی
نگاہوں میں الجھن ، دلوں میں اداسی
یہ دنیا ہے یا عالمِ بد حواسی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟
یہاں اک کھلونا ہے انساں کی ہستی
یہ بستی ہے مردہ پرستوں کی بستی
یہاں پر تو ہے جیون سے موت سستی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟
جوانی بھٹکتی ہے بدکار بن کر
جواں جسم سجتے ہیں بازار بن کر
یہاں پیار ہوتا ہے بیوپار بن کر
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟
یہ دنیا جہاں آدمی کچھ نہیں ہے
وفا کچھ نہیں ، دوستی کچھ نہیں ہے
جہاں پیار کی قدر ہی کچھ نہیں ہے
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟
جلا دو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا
میرے سامنے سے ہٹا لو یہ دنیا
تمھاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟