پون صدی کے تجربات نے ہم پاکستانیوں کو ایک ’’اصول‘‘ اچھی طرح سے سمجھا دیا ہے کہ ہمیشہ برے کی توقع رکھو۔ توقع کو اپ گریڈ کر کے ’’یقین‘‘ کا لفظ استعمال کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ لیکن ساتھ اس کے یہ بھی ہے کہ اچھے کی امید رکھنا بھی خلاف قانون نہیں، اسے بنیادی حقوق میں شامل نکتہ سمجھنا چاہیے۔
تو اچھے کی امید ، سابق مشرقی پاکستان اور حال بنگلہ دیش کے حوالے سے یہ ہے کہ وہاں کا اگلا حکومتی ڈھانچہ چین نواز، پاکستان نواز (کسی حد تک) اور اسلام نواز اور مسلم قوم پرست نواز ہو گا۔ دلچسپ بات ہے کہ دو سال پہلے چین دشمن عناصر کا غلبہ پاکستان سے ختم ہوا، دو سال بعد بنگلہ دیش سے۔ پاکستان میں ایسی جماعت کی حکمرانی تھی جسے ’’فارن فنڈڈ‘‘ جماعت کا نام بھی دیا جاتا تھا۔ یہاں فارن سے مراد بھارت اسرائیل اور امریکہ تھے۔ بنگلہ دیش میں فارن فنڈڈ کا نام ’’را‘‘ فنڈڈ تھا۔ ’’انقلاب‘‘ کے بعد بنگلہ دیشی عوام کا غم و غصہ ’’را‘‘ پر اور ’’را فنڈڈ‘‘ دونوں پر نکل رہا ہے۔ ملک بھر سے شیخ مجیب کے مجسمے، تصویریں اور عوامی لیگ تینوں غائب ہو گئے ہیں۔
ایک تصویر دیکھ کر یاد آیا کہ یہ تو عوامی لیگ کا انتخابی نشان ہے اور آج سے نہیں، 1971ء سے ہے۔ ایک جگہ لوگ ’’کشتی‘‘ کے اس نشان والے بورڈ کو توڑ رہے تھے، اسی کی تصویر تھی۔
______
یہ بات بھارتی میڈیا نے لکھی ہے کہ بنگلہ دیش کے آرمی چیف چین نواز ہیں۔ عوامی میدان میں اس وقت صرف دو جماعتیں ہیں، ایک خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی جسے بنگلہ دیش کی مسلم لیگ سمجھیئے۔ دوسری جماعت اسلامی۔ پہلی جماعت مسلم قوم پرست، دوسری خالصتاً اسلامی نظرئیے کی جماعت ہے۔ دونوں کا رحجان چین اور پاکستان کی طرف ہے۔
چنانچہ اچھے کی امید یہ ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ بھارت کو مشرق سے ٹھنڈی ہوائیں آنا بند ہو جائیں گی۔پورب سے چلی پر بائی(پروائی) کا گیت اب نہیں بجے گا۔
لیکن اچھی امید والی اس بات پر امریکہ اور بھارت کی نظر بھی تو ہوگی، چنانچہ احتیاط اور تجربے کا تقاضا یہ ہے کہ اوپر بیان کئے گئے اصول یعنی ہمیشہ برے کی توقع رکھو، کو پیش نظر رہنا چاہیے۔
______
چین بنگلہ دیش سے برما کے ذریعے ملا ہوا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ برما کی فاشسٹ اور ظالم حکومت کی پالیسیوں سے ریاستی ڈھانچہ غتربود ہو رہا ہے۔ چین کی سرحدیں شمالی برما سے ملتی ہیں جہاں وسیع علاقے باغیوں کے کنٹرول میں ہیں جو برما سے الگ ہو کر اپنا ملک بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سارا علاقہ چین کے باغیوں کے نرغے میں ہے اور برمی فوج یہاں شدید بمباری کے باوجود بے بس نظر آتی ہے۔ مانڈلے برما کے وسط میں ہے اور رنگون کے بعد ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے (حالیہ نام ینگون)۔ مانڈلے سے اوپر کا تمام برما ایک طرح سے فوج کے کنٹرول سے نکل چکا ہے۔ مشرق میں شان باغی ہیں۔ برمی فوج نے مسلمانوں کی نسل کشی تو کمال آسانی و مہارت سے کر لی اور روہنگیا علاقوں کو ویرانوں اور قبرستانوں میں بدل دیا لیکن دوسرے باغیوں سے نبردآزمائی کا معاملہ مردانگی سے متعلق ہے جو برمائی فوجی جنتا میں مطلق نہیں۔
تیسری طرف برمی عوام ہیں۔ وہ بھی باغی ہیں لیکن نہتے اور غیر مسلح ہیں، یہ مسئلے ہیں جو چین کا درد سر بنے ہوئے ہیں ورنہ شمالی برما سے بنگلہ دیش کے سمندر تک کاریڈور بنانا کچھ مشکل نہ تھا۔
______
جماعت اسلامی کے امیر نعیم الرحمن نے دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے ایک فقرہ کہا ہے، یہ کہ ’’حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نظر نہیں آتی‘‘
اس فقرے کو پھر سے پڑھیئے۔ فقرے سے ایک آدھ لفظ نکال دیا جائے تو وہ بے معنے اور نامکمل ہو جاتا ہے لیکن اس فقرے کا کمال دیکھئے، اس میں سے ایک دو نہیں، پورے تین الفاظ نکال دئیے جائیں، تب بھی یہ مکمل اور بامعنی رہے گا بلکہ زیادہ مکمل اور زیادہ بامعنی ہو جائے گا۔
وہ تین لفظ ہیں ’’مذاکرات میں سنجیدہ‘‘__ فقرے کو پھر سے پڑھیئے اور یہ تنی لفظ نکال کر نگاہ مکّرر ڈالئے۔ اور مزا لیجئے۔
______
ویسے حکومت گزشتہ روز کچھ کچھ نظر آئی۔ جب اس نے قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں ایوانوں سے ایک بل منظور کرایا جس میں وضاحت کی گئی کہ آزاد امیدواروں کی کسی پارٹی میں شمولیت کیلئے جو قاعدے قانون آئین میں لکھے ہوئے ہیں، وہی نافذ العمل رہیں گے، کسی کے آئین کو ’’ری رائٹ‘‘ کرنے سے تبدیل نہیں ہوں گے۔
یہ تو دنیا بھر کا اصول ہے کہ قانون اور آئین سازی بلاشرکت غیرے پارلیمنٹ کا اختیار ہے لیکن ہمارے ہاں اصولوں کا باوا آدم نرالا ہے۔ یہاں کچھ لوگ کھلے عام کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کون ہوتی ہے قانون بنانے والی، یہ ہم مابدولت ہیں، جو بھی بول دیں، وہی آئین جو بھی لکھ دیں، وہی آئین ہے۔
اب دیکھئے، باواآدم معمول پر آتا ہے یا نہیں۔
______
حافظ نعیم الرحمن نے مہنگائی کیخلاف دھرنا دے رکھا ہے اور حکومت اپنی جگہ اس آہنی عزم پر قائم ہے کہ ہمارے ہوتے ہوئے کسی مائی کے لال کی یہ مجال نہیں ہو سکتی کہ مہنگائی کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے بھی دیکھ سکے۔
خیر، یہ ’’سٹینڈسٹّل‘‘ تو اپنی جگہ ، حافظ صاحب نے دھرنے سے خطاب کے دوران فوج کو بھی مخاطب کیا اور سوال کیا کہ جنرل باجوہ پر کشمیر فروشی کا جو الزام ہے، اس کی وضاحت کی جائے۔
کشمیر کے معاملے پر جو بھی سودے بازی تب کے صدر ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہائوس میں ہوئی، وہ اکیلے باجوہ نے نہیں کی، اس میں ’’مہاتما‘‘ بھی شریک تھے بلکہ شریک اعظم تھے جنہوں نے بعدازاں یہ نعرہ مسرّت لگایا تھا کہ ایک اور ورلڈ کپ جیت کر لایا ہوں__ جماعت اسلامی ’’مہاتما‘‘ کا نام کیوں نہیں لیتی؟