چین سمیت دوسرے ممالک کا ملک میں سیاسی استحکام لانے کا مشورہ

دوست ممالک کی جانب سے ہمیں ملک میں سیاسی استحکام کی ضرورت پر دئے گئے مشوروں کے برعکس تمام سٹیک ہولڈرز کی جانب سے محاذ آرائی میں روز بروز اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے اور اب بات سیاسی اختلافات سے بڑھ کر اداروں کے مابین محاز آرائی کی جانب بڑھتی جارہی ہے۔  محاز آرائی اور عدم برداشت کی یہ  سیاست ملک کو مزید معاشی مسائل سے دوچار کرسکتی ہے۔وطن عزیز کو اسوقت شدید معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اور ہمارے معروضی حالات بتاتے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔ چین سمیت ہمارے تمام دوست ممالک نے اب برسرعام ہمیں سیاسی استحکام لانے کا درس دینا شروع کردیا ہے جسے ارباب اختیار کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں کو بھی انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور قومی سلامتی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو سپیس دینی چاہئے۔ اسوقت درپیش   معاشی مشکلات انتہائی اہم مسئلہ ہے ،حکومت نے بھی ان معاشی چیلنجز سے نبردآزما ہونے کیلئے ٹیکسز کا سارا بوجھ عوام پر منتقل کردیا ہے۔ جس سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں اور مہنگائی،  بھاری بھرکم بجلی کے بل اور ٹیکسز کے بوجھ میں پس کر رہ گئے ہیں۔ عوام اس بات سے سخت نالاں ہے کہ حکمران اپنے پروٹوکولز اور مراعت میں کمی کرنے جو تیار نہیں اور عوام پر ڈائریکٹ او ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ آئی پی پیز سے کئے گئے معاہدوں اور انہیں اربوں ڈالرز کی ادائیگیوں کے انکشافات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ کس طرح غلط معاہدوں کے ذریعے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کیا گیا مگر ابتک یہ معاہدے کرنے والے زمہ داران کا احتساب کیا جارہا ہے اور نہ ہی ان معاہدوں سے جان چھڑانے کا کوئی قابل عمل حل پیش کیا گیا ہے جس کے باعث عوام میں شدید اضطراب اور تشویش پائی جاتی ہے۔ 
آئی پی پیز معاہدوں، مہنگی بجلی اور تنخواہ دار طبقے پراضافی ٹیکسوں کیخلاف  جماعت اسلامی کا احتجاج اور دھرنا جاری ہے۔ مطالبات کی منظوری کے لیے حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان مذاکرات کے تین دور ہو چکے ہیں جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے، اسطرح حکومت اور جماعت اسلامی میں ڈیڈلاک  تاحال برقرار ہے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے حکومت پر بات چیت سے فرار کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ مذاکرات میں مثبت پیش رفت نہ ہونے اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے جماعت اسلامی نے ملک گیر  احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا اعلان کردیا ہے۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی نے آج  8 اگست کو دھرنا مارچ کرنے کا اعلان کردیا، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کے مطابق مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رہے گا، 14 اگست کے بعد تاجروں سے مشاورت کے بعد ملک گیر شٹرڈاؤن ہڑتال کا اعلان بھی کریں گے، دھرنا مارچ کرنے کا ابتدائی شیڈول  اعلان کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے بتایا کہ 11اگست کو لاہور میں دھرنا دیا جائے گا، 12 اگست کو پشاور میں تاریخی دھرنا ہوگا جبکہ 16 اگست سے ملتان میں دھرنے کا اعلان کیا گیا ہے، ملتان دھرنا اسلام آباد اور کراچی کے جاری،  لاہور اور پشاور  میں آئندہ دنوں میں شروع ہونے والے دھرنوں کا تسلسل ہوگا۔  16 اگست کے  ملتان دھرنے سے متعلق مشاورت اور آئندہ کی حکمت عملی کی تیاری کے لیے جماعت اسلامی جنوبی پنجاب اور ملتان نے  اجلاس طلب کرلیے ہیں جس میں ملتان دھرنے سے متعلق اہم امور پر غور کیا جائے گا۔دھرنا مارچ کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں بجلی کی قیمت کم ہو، آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی ناگزیر ہے، آئی پی پیز کو جو کیپسٹی پیمنٹ دی جارہی ہے وہ قوم کو منظور نہیں ہے، اس اہم ترین ایشو پر بھی حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی،  تمام آئی پی پیز کا فارنزک آڈٹ ہونا چاہیئے اور چیئرمین واپڈا کو کمیٹی کا ممبر بننا چاہیے،اسوقت حالات یہ ہیں کہ حکومت نے تمام بوجھ عوام پر منتقل کردیا ہے، کرایہ کے مکانوں میں رہنے والوں کو کرایہ سے زیادہ بجلی کا بل آجاتا ہے۔ لوگ اپنی اشیائے ضروریہ بیچ کر ناجائز بل ادا کررہے ہیں اور خودکشیوں پر مجبور ہورہے ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ہمیں اعلانات اور کمیٹیاں نہیں اقدامات چاہئیں،  ہمارا ایجنڈا واضح ہے کہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے تک یہ دھرنا ختم نہیں ہوگا۔ مری روڈ پر امن مارچ ہوگا، مری روڈ پر مارچ ہمارا حق ہے، اگست کے بعد ملک گیر ہڑتال کا بھی اعلان کریں گے، ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں ہمیں یہ ناجائز  بل منظور نہیں ہے، ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے لیکن غیر ضروری ٹیکس نہ لگایا جائے،حکومت کی مذاکرات میں سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں ان کو شامل کرلیا گیا ہے جو اس کے ذمہ دار ہیں۔ دوسری جانب ملک کی عوام کی حمایت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار پاکستان تحریک انصاف نے اس اہم عوامی ایشو پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اس ضمن میں انکی جانب سے احتجاج کی کوئی کال نہیں دی گئی اور وہ صرف اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کی جیلوں سے رہائی، اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔گو کہ بانی پی ٹی آئی کے بغیر  صوابی جلسہ کے انعقاد سے ان کا مورال کچھ بلند ہوا ہے مگر پارٹی  میں اٹھتے اندورنی اختلافات بھی اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔پی ٹی آئی مرکزی سیکرٹریٹ سے لیکر صوبائی و ضلعی تنظیموں میں اختلافات بڑھتے چلے جارہے ہیں اور جنوبی پنجاب سمیت ملک کے دیگر اضلاع میں تنظیمی نیٹ ورک عملاً غیر فعال ہے۔ ملتان میں سینیٹر عون عباس بپی ،ملک عامر ڈوگر، مخدوم زین قریشی، معین ریاض قریشی ملکی سطح پر دی گئی ایک بھی احتجاجی کی کال پر کوئی ایک بھی قابل ذکر احتجاجی ایونٹ نہیں کروا سکے۔ اسی طرح سیاسی چپقلش اور اندرونی اختلافات کے باعث ضلع و ملتان شہر کی تنظیمیں بھی غیر فعال ہیں اور تنظیمی عہدوں کے حصول کے معاملے پر بھی گروپنگ عروج پر ہے۔
مزید برآں ملتان میں صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی اور نشتر ہسپتال پر مریضوں کے دباؤ کے باعث نشتر ٹو منصوبے  کو مکمل کر لیا گیا ہے۔ مختلف ادوار میں اقساط میں فنڈز کی فراہمی کے باعث اس کی عمارت تو کسی طرح مکمل ہوگئی ہے اور اسکی تعمیر کے معیار پر بھی کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔اس کے علاوہ اب اس ہسپتال کو نیا سٹاف ،آپریشن تھیٹرز،طبی مشینری وغیرہ مہیا کرنے کی بجائے اسکو  فنکشنل کرنے کیلئے  حکومتی سطح پر مختلف حربے آزمانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ نشتر ٹو میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی نئی آسامیوں پر تعیناتیوں کی بجائے نشتر ون سے ڈاکٹرز اور سٹاف کی آسامیاں یہاں منتقل کی گئی ہیں اور اب نشتر ہسپتال سے مختلف مکمل وارڈز کی منتقلی کی کوشش کی گئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن