بنگلہ دیش کا انقلاب اور ہمارے حالات!!! 

بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والے طلباء کے احتجاج نے بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچادی کہ وزیراعظم حسینہ واجد کو ملک سے فرار ہوکر بھارت میں پناہ لینا پڑی اور بنگلہ دیش کے آرمی چیف نے وزیراعظم کو 45 منٹ کا فیصلے کا وقت دیا۔ حسینہ واجد کی حکومت نے جماعت اسلامی کے کئی بزرگ رہنماؤں کو چن چن پھانسی کی سزائیں دیں۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور پھر نوجوانوں کے احتجاج نے اس قدر شدت اختیار کی کہ حسینہ واجد کو ملک میں رہنے کی جگہ نہ مل سکی۔ پاکستان سے غداری کرکے دولخت کرنے والے خاندان کو اللہ نے نشان عبرت بنادیا۔
ہمیں بھی بنگلہ دیش کے حالات سے سبق سیکھنا چاہئے۔ سیاستدانوں نے حالات اس نہج پر پہنچا دیئے ہیں کہ اکتوبر 1999ء کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ اس وقت بھی ملک کے ڈیفالٹر او ر دہشت گرد قرار دیئے جانے کی باتیں تھیں اور اب بھی کچھ سیاستدان ملک میں دہشت گردی کرنے والے کا ساتھ دیتے نظر آرہے ہیں اور ملک کو معاشی استحکام کی جانب لے جانے کے بجائے ان کی کوشش ہے کہ ملک میں سیاسی انتشار اور معاشی دیوالیہ پن چلتا رہے اور ان کی سیاست کو دوام ملے۔ یہ وہ سیاسی لوگ ہیں جو پہلے تو اداروں کے ساتھ بہتر تعلقات رکھ کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں اور دن رات ان کی تعریفیں کرتے ہیں لیکن جیسے ہی اقتدار سے الگ ہوتے ہیں تو اداروں کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے۔
موجودہ حالات کو سیاسی عدم استحکام سے ہٹاکر سیاسی و معاشی استحکام تک لے جانے کی ذمہ داری تو سیاستدانوں کی ہے اور بات چیت بھی سیاستدانوں نے ہی آپس میں کرکے حالات کو بہتر کرنا ہے۔جب سیاستدانوں کی ہٹ دھرمی اور نااہلی کی وجہ سے مارشل لاء لگا اور سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشر ف کو 3سال تک وردی میں رہ کر نہ صرف حکومت کرنے کی اجازت دی بلکہ آئین میں ضروری ترمیم کا اختیار بھی دیا۔اب بھی اگر ناگزیرہوگیا کہ ملک کو بچانے کے لئے ملکی دفاع و سلامتی کے ذمہ داروں کو سامنے آنا پڑا تو کیا عدلیہ ملکی مفاد اور بہتری میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرسکے گی؟ گزشتہ دنوں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست پر سپریم کورٹ کے اکثریتی ججوں نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا مختصر فیصلہ دیا لیکن ابھی تک تفصیلی فیصلہ جاری نہیں ہوا جبکہ اختلاف کرنے والے ججوں نے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ پی ٹی آئی نہ تو اپنے نشان پر الیکشن لڑی اور نہ ہی انہوں نے سپریم کورٹ میں درخواست کرکے مخصوص نشستیں مانگیں تو ایسا فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کو بن مانگے نشستیں دے دی جائیں۔ اس فیصلے سے ملک میں سیاسی تصادم کی صورتحال ہے۔ اس فیصلے سے تو بہتر تھا کہ تمام جج متفقہ طور پر 5-6 ماہ میں نئے انتخابات کرانے کا حکم دے دیتے‘ اس سے ملک سیاسی تصادم سے بچ جاتا اور تمام معاملات ایک طرف چل پڑتے۔ 
میرے خیال میں تو سب سے پہلے پاکستان کی سوچ رکھ کر صرف اور صرف ملک کی بہتری کے لئے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کریں۔نگران حکومت جب قائم ہوئی تو اسٹاک مارکیٹ 41,000 انڈیکس پر تھی اور ڈالر 350کی حد تک جاچکا تھا۔ نگران حکومت نے تاریخ میں سب سے بہتر  حکومت ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور ڈالر کی قدر میں نمایاں کمی کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ساتھ ہی ساتھ اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی آئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اب اسٹاک مارکیٹ 81,000 انڈیکس کی حد تک جاپہنچی ہے۔ ایس آئی ایف سی ایپکس کمیٹی کے قیام کے بعد سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ برادر اسلامی ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لئے بہترین مکینزم کا اجراء کیا گیا ہے جس میں گزرتے وقت کے ساتھ بہتری لائی جارہی ہے۔ ان اقدامات سے یقینی طور پر ملک کو امداد اور قرض کی ضرورت نہیں رہے گی اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں انقلابی اضافہ ہوگا۔ 
ایس آئی ایف سی ایپکس کمیٹی کے اقدامات سے ملک میں جو معاشی بہترین آئی ہے اور اب اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں بھی کمی دیکھی جارہی ہے۔ اب حکومت کو مصنوعی مہنگائی کے خاتمے کے لئے بھی موثر مکینزم قائم کرکے ذخیرہ اندوزوں‘ ملاوٹ کرنے والوں اور مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے خلاف موثر کارروائیاں کرنی ہوں گی تاکہ عام آدمی کو تمام ممکنہ ریلیف مل سکے۔ اس سلسلے میں تمام صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تمام بھرپور کوششیں کرکے عوام کو ریلیف دیں۔ 
اب بجلی بلوں سے پریشان عوام کی ترجمانی کے لئے جماعت اسلامی نے دھرنوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ صنعتکاروں نے بھی آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک وفد صدر زرداری سے بھی ملا اور پھر وزیراعلٰی سندھ نے بھی بجلی بلوں میں اضافے کے متعلق کراچی میں صنعتکاروں اور کاروباری افراد سے خطاب کیا۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی اویس لغاری انتہائی مناسب شخصیت ہیں۔ بجلی کے معاملے پر دھرنے دینے یا احتجاج و بیان بازی کرنے والوں کے جواب میں بیان بازی سے معاملات غلط طرف کو جاتے نظر آتے ہیں۔ اس لئے بہتر ہے کہ حکومت اور وزارت پانی و بجلی کی جانب سے جماعت اسلامی او ر صنعتکاروں کو بلاکر آئی پی پی معاہدوں پر تفصیلی بریفنگ دی جائے اور آئی پی پی کے علاوہ دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت اور فروخت کے متعلق بھی اعتماد میں لیا جانا چاہئے۔
بنگلہ دیش میں بھی احتجاج طلباء نے کوٹہ سسٹم پر شروع کیا جو بڑھتے بڑھتے حکومت کے خاتمے پر منتج ہوا۔ اگر یہاں بیان بازی سے معاملات الجھاکر عوام کو اشتعال دلایا گیا اور ایک واضح حکومتی پوزیشن عوام کے سامنے نہ لائی جاسکی تو پھر بجلی بلوں پر شروع ہونے والا احتجاج بڑھ سکتا ہے اور مجھے تو  ایسا ہی لگتا ہے کہ معاملات خرابی کی طرف ہی لے جائے جائیں گے۔ اگر یہاں بھرپور احتجاج ہوا تو بنگلہ دیشی آرمی چیف نے تو فیصلوں کے لئے 45 منٹ دیئے تھے لیکن شاید یہاں 5منٹ بھی نہ دیئے جائیں۔ حکومت بجلی بلوں سے ناجائز ٹیکس فوری ختم کرے۔ یہ فارمولہ کہ ایک ماہ آپ نے 200 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرلی تو پھر اگلے چھ ماہ تک آپ کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا چاہے بعد میں آپ 200یونٹ سے کم بجلی بھی استعمال کریں۔ اس طرح کے ظالمانہ سلیب اور ٹیکس در ٹیکس تو عوام کے لئے قابل قبول نہیں ہوں گے۔آئی پی پیز کے علاوہ ایٹمی ذرائع‘ ونڈ پاور‘ ہائیڈل پاور سمیت دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت اور فروخت قوم کے سامنے لائی جائے۔ حکومت بجلی سے کاروبار کرنا چھوڑے اور حقیقت پر مبنی ٹیرف لاگو کرکے سلیب کے گورکھ دھندے کا ہر صورت خاتمہ ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہئے کہ واضح طور پر احتجاج کرنے والوں کو مطمئن کرے۔ عوام کو تمام ممکنہ ریلیف ہر صورت ملنا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن