الگ تھلگ جزیرہ 

Aug 08, 2024

محمد دلاور چودھری

ہومر کی ٹرائے کی جنگ والی رزمیہ ایلیڈ کی طرح اوڈیسی بھی عالمی طور پر جانی اور مانی شاہکار داستان ہے۔ جس کا ہیرو اوڈیسیئسں دنیا سے بے خبر اور الگ تھلگ جزیروں کا سفر طے کرتا برسوں بعد اپنے گھر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتاہے۔ جزیرے الگ تھلگ ہوں گے تو وہاں مخلوق بھی غیر معمولی ہو گی۔ اوڈیسیئسں کو بھی جادوگرنیوں کے چنگل سے نکلنا اور ایک آنکھ والے دیو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان جزیروں کی ہر چیز ہی نرالی ہوتی ہے، رہن سہن، سوچنے کا انداز غرض سب کچھ باقی دنیا سے بہت مختلف ہوتا ہے۔اوڈیسی پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ دنیا سے الگ تھلگ جزیروں کی وطن عزیز سے حیران کن مماثلت محض اتفاق ہے یا ہم بھی کسی الگ تھلگ جزیرے پر آباد ہیں کہ جہاں تازہ ہوا کا گزر ہوتا ہے نہ آسانی سے روشنی کی کرنیں پہنچ پاتی ہیں۔ ناکارہ تعلیمی ماحول، عمل سے عاری قوانین، حقیقت سے بعید طرز حکمرانی اور سیاست، سماجی رکھ رکھاؤ، معاشی معاملات سب کچھ ہی تو دنیا بھر سے مختلف ہے …ایک ایسا طلسم جہاں جادوگروں کی فوج ظفر موج اور ایک آنکھ والے دیو ناتوانوں کے نوالوں پر جھپٹنے کیلئے ہر دم تیار رہتے ہیں اور عام آدمی کے وسائل کو موم کی ناک سمجھ کر جس طرف چاہیں موڑنے پر قادر ہیں اور ایک ہی جھپٹ میں غریب عوام کی محنت کی کمائی لے اڑنے کے باوجود ان کے پیٹ کا دوزخ نہیں بھرتا جو ممکن ہے دوزخ میں ہی بھر سکے۔ 
شکم کے موٹے اور عقل کے اندھے یہ لوگ دور دراز تو کیا اردگرد کی دنیا کے اشارے سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔ انہیں کیا احساس کہ بنگلہ دیش میں کیا ہو رہا ہے یا سری لنکا میں کیا ہو چکا ہے۔ وہ تو بڑے دانشورانہ انداز میں ’’یہاں کچھ نہیں ہو سکتا‘‘ کے دلائل کے ڈھیر لگائے ایک ہی ڈگر پر چلتے چلے جا رہے ہیں۔
الگ تھلگ جزیروں میں بے عقلی اکثر دانش کی جگہ لے لیا کرتی ہے اور سمجھداری کی شاہراہوں کے آگے ’’یہاں داخلہ سختی سے منع ہے‘‘ کے بورڈ لگا دیا کرتی ہے۔
 اسی طرح کے ایک جزیرے پر ایک نابینا اور اس کا دوست رہا کرتے تھے۔ دوست نارمل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ کے اعتبار سے بھی نارمل تھا جبکہ نابینا آنکھوں کے علاوہ دولت کی چمک کے باعث عقل سے بھی محروم تھا۔ ایک بار نابینا کا بہت مہنگا کوڑا گم ہو گیا تلاش کے بعد کوڑا تو نہیں ملا لیکن ایک خوفناک سانپ اس کے ہاتھ آ گیا اس نے کوڑا سمجھ کر اسے دبوچ لیا سانپ سردی سے بے حال تھا۔ اس کے دوست کی نظر سانپ پر پڑی تو بچانے کیلئے بے چین ہوا جلدی سے بتایا کہ جسے وہ بیش قیمت کوڑا سمجھ بیٹھا ہے وہ در حقیقت سانپ ہے یہ سن کر عقل اور آنکھوں دونوں کا اندھا سوچنے لگا کہ شاید میرے دوست کا دل قیمتی کوڑے پر آ گیا ہے اور وہ اسے ہتھیانے کیلئے ارباب اختیار والے ہتھکنڈے اپنا رہا ہے۔ فوراً سانپ پر گرفت مزید سخت کرکے بولا ’’میں جانتا ہوں تو میرا انتہائی مہنگا کوڑا حاصل کرنے کے درپے ہے اور چاہتا ہے کہ میں اسے ڈر کر پھینک دوں اور تو اٹھا لے، میرے دوست میں آنکھوں سے اندھا ضرور ہوں عقل سے نہیں۔" چنانچہ وہی ہوا جو الگ تھلگ جزیروں میں ظاہری عقلمند اور اصل میں عقل کے اندھوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ گرمی پہنچنے پر سانپ کو ہوش آیا تو اپنے آپ کو شکار کی گرفت میں پاکر فوراً اندھے کو ڈس لیا اور کام تمام کر دیا۔ الگ تھلگ جزیروں میں بے عقلی دانش بن کر اس طرح رقص کرتی ہے جس طرح ویران دیواروں پر اداسی ناچا کرتی ہے۔ الگ تھلگ جزیروں، وہاں کے کرتا دھرتاؤں کے ذہنوں پر دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کا اثر کم ہی ہوتا ہے اس لئے دانش کی آنکھیں نہ کھلنے کی وجہ سے اکثر وہ سانپ کو بیش قیمت کوڑا سمجھتے رہتے ہیں اور اس کوڑے سے سب کو ہانکنے کی کوشش میں ایک دن نابینا والے انجام کو پہنچ جاتے ہیں اور ساتھ ہی قوم کو بھی اسی انجام کی طرف ہانک دیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اور سری لنکا کے راجہ پاکسے نے بھی یہی سوچا ہوگا کہ عوام کی توجہ اور نظر زمین پر ہی گڑی رہے وہ آسمان کی کی بلندیوں کو نہ دیکھ سکیں نہ چھو سکیں اور نہ ہی محسوس کر سکیں اس لئے حسینہ اور راجہ پاکسے جیسے لوگ سانپ نما کوڑا پکڑ پکڑ کر لوگوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ آسمان بہت بد رنگ ہے۔ اس کی طرف دیکھنے سے انسان نظر کھو سکتا ہے اس لئے نظریں جھکائے رکھو… عوام بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں لیکن جب یہ سانپ نما کوڑا ان کے پیٹ پر پڑتا ہے، اور گھر میں بھوک ناچتی ہے، بچے بلکتے ہیں تو وہ چاہے نہ چاہے آسمان کی طرف دیکھ ہی لیتے ہیں اور پھر وہی ہوتا ہے جو بنگلہ دیش اور سری لنکا میں ہوا۔ 
مجھے معروف رائٹر اشفاق احمد کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ’’سفر در سفر‘‘ میں لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مشہور گائیک استاد امانت علی خان کا جنازہ پڑھ کر واپس جا رہے تھے کہ اداکار اکمل بھی گاڑی میں ساتھ ہو لیا اور بڑی معصومیت سے پوچھا کہ امانت کو کیا ہوا اتنی جلدی کیوں موت کے منہ میں چلا گیا۔
اس پر اشفاق احمد نے اکمل کو بتایا کہ فنکار مرتا نہیں روٹھ جاتا ہے۔ وہ اپنے پیار کرنیوالوں سے کہتا ہے کہ مجھے کوزہ لیکر دو۔ پیار کرنیوالے لیکر دیتے ہیں تو فنکار ہاتھی کی فرمائش کرتا ہے۔ محبت کرنے والے زیور بیچ کر، بزرگوں کی دوا اور بچوں کی تعلیم کیلئے رکھے پیسے خرچ کرکے ہاتھی بھی لے دیتے ہیں۔پھر فنکار ضد کرتا ہے کہ اب ہاتھی کو کوزے میں بند کر دو۔ جب یہ نہیں ہو پاتا تو فنکار روٹھ جاتا ہے۔
الگ تھلگ جزیرے پر حکمرانی کرنیوالوں کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ ان کی رعایا نما عوام آسمان کی طرف نہ دیکھنے پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔ کوزہ اور ہاتھی بھی کسی طرح خرید کر دے دیتے ہیں لیکن جب کوڑا بھوکے پیٹ پر پڑتا ہے تو تمام تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں کہ سب سے بڑا مسئلہ معاشی مسئلہ ہے اور سب سے بڑا سوال پاپی پیٹ کا سوال ہوا کرتا ہے۔ 
چین، روس، فرانس، سری لنکا، بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو چکا ہے اور آگے بھی جو کچھ ہو گا وہ روٹی کے مسئلہ پر ہی ہو گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آئی پی پیز کے ڈسے عوام تو بچوں کیلئے کھانے کے نام پر ہانڈی میں ’’بھوک پکاتے‘‘ رہیں اور چند لوگ سونے کے نوالوں میں ہیروں کی آمیزش کرکے کھاتے رہیں۔ 
بھرے پیٹوں والے بھوکے عوام کو ہاتھی کوزے میں بند کرنے کے مشورے دیں گے تو وہ روٹھیں گے نہیں تو اور کیا کریں گے اور عوام روٹھ جائیں تو جزیرے الگ تھلگ نہیں رہ پاتے انہونی ہونی میں بدل جایا کرتی ہے اور باقی دنیا کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے سب ایک جیسا ہو جاتا ہے جس طرح موسلادھا بارش میں جل تھل … موجودہ حالات میں ساحر لدھیانوی کا شعر یاد آ گیا
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا 
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا۔

مزیدخبریں