جمعرات ، 2 صفر المظفر، 1446ھ 8 اگست 2024ء

  کئی پاکستانی  سیاست دانوں میں بھی تخت یا تختہ کی خواہش  مچلنے لگی۔
اور کچھ ہو یا نہ ہو مگر بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے دھڑن تختہ کے بعد ہمارے ملک کی بہت سی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی ہیں۔ ان کے مدھم پڑتے اقتدار کے محلات میں داخلے کی خواہشات ایک بار پھر مچلنے لگی ہیں۔ من ہی من میں وہ نجانے کون کون سی بات پر بے ساختہ مسکرانے لگتے ہیں۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی کوئی ایسا ہی واقعہ ہو کہ ملک بھر کی سڑکوں پر لوگوں کا جم غفیر ان کو کاندھوں پر اٹھا کر اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہو اور وہ وزیراعظم ہائوس میں براجمان ہو کر ایک مرتبہ پھر حکومت کے مزے لوٹیں۔ لیکن ان کے ماتھے پر تفکر کی سلوٹیں اس وقت گہری شکنوں میں تبدیل ہونے لگتی ہیں جب وہ تصور کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آتے ہیں۔ یہاں تو کوئی اور منظر ان کے سامنے ہوتا ہے۔ نہ ہجوم نہ نعرے نہ ہی جوش و خروش۔ سڑکوں پر خاموشی سے ٹریفک رواں دواں ہے۔ بنگلہ دیش والے حالات نے بھی یہاں کوئی اثر نہیں ڈالا۔ ہاں البتہ صوابی میں گزشتہ شب پی ٹی آئی کے جلسہ میں مقررین کی شعلہ بیانی بھی کام نہ آئی اور مجمع بھی صرف نعرے بازی کر کے رہنمائوں کا اور اپنا دل خوش کرتے رہے۔   یہاں بھی علی امین گنڈا پور نے پنجاب پولیس کو رگیدا کہ اس نے یہاں آنے والے قافلوں کو روکا، انہیں آنے نہیں دیا۔ اب عوام کو جلد بانی کال دیں گے تو سب باہر آئیں گے، اور جیل سے اپنے بانی کو چھڑائیں گے یعنی یہاں بھی عوام کی طاقت سے سب کچھ بدل دیں گے۔ یہ صرف ان کا ہی خواب نہیں ساری اپوزیشن یہی بنگلہ دیش ٹائپ  خواب دیکھ رہی ہے۔ چاہے گھر میں ہوں جیل میں یا جلسہ میں۔ مگر اب یہاں ان کے لیے بنگالی طلبہ جیسے ’’رضاکار‘‘ کہاں سے آئیں گے۔ یہ سوال سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو دن رات تنگ کرنے کے لیے کافی ہے۔ 
 ماہرنگ  بلوچ کی منفی سیاست کا نیا رنگ۔
لاپتہ افراد کی بازیابی ایک اہم مطالبہ ہے اس پر پورے ملک کے عوام یک آواز ہیں۔ مگر اس کی آڑ میں  دہشت گرد تنظیموں نے عوام کو بے وقوف بناتے ہوئے ایک خاتون دستے کو ماہرنگ بلوچ کی قیادت میں ریاست مخالف بیانئے کو بڑھاوا دینے کے لیے آگے کر دیا ہے۔ اس گروہ کی کئی خواتین نے یورپ و امریکہ یاترا بھی، کرلی ہے۔ وہاں جا کر ان کی ٹیون اور تیزہو گئی ہے۔ وہاں بھی یہی منفی روش اور پراپیگنڈا کیا گیا کہ پاکستانی حکومت۔ پنجاب اور  فورسز بلوچوں کو زبردستی گم شدہ قرار دیکر مار رہی ہیں۔ ہزاروں لاپتہ ہیں۔ یورپ و امریکہ کے متعدد سیاستدان بھی ان کی باتوں میں آ گئے۔ وہاں یہ خواتین بنا چادر کے  پھرتی سب سے ملتی رہتی تھیں جبکہ پاکستان میں یہ باپردہ نظر آتی ہیں جو اچھی بات ہے۔ دراصل بھارت کی فنڈنگ سے دہشت گرد بلوچ تنظیمیں، بلوچستان میں دھماکے کرتی ہیں۔ فورسز پر حملے کرتی ہیں۔ پنجابی مزدورں کو آباد کاروں کو قتل کر رہی ہیں۔ اپنی ان ظالمانہ کارروائیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے لاپتہ افراد کا شور مچا کر لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ اس ساری تحریک کا واحد مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ سی پیک کو ناکام بنایا جائے۔ یہی بھارت اور امریکہ کی خواہش ہے۔ جب بھی سی پیک پر کام تیز ہوتا ہے۔ یہ دہشت گرد اپنی کارروائیاں تیز کر دیتے ہیں۔ اب گوادر  پورٹ اور ائیرپورٹ مکمل ہو کر آپریشنل ہو رہے ہیں تو وہ گوادر، تربت، مکران کوئٹہ میں دھرنے دے کر سڑکیں بند کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے ان دھرنوں کے منتظمین سے مذاکرات کر کے ان کے تمام مطالبات مان لیے ہیں گرفتار شدگان رہا ہو چکے ہیں مگر اب ان دھرنے والوں اور ماہرنگ کا نیا رنگ سامنے آ رہا ہے۔ وہ دھرنا چھوڑنے سے منکر ہو رہے ہیں۔ جان بوجھ کر حالات خراب کرنے کے درپے ہیں تاکہ سارا ملبہ حکومت پر ڈالا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کہہ چکے ہیں بات چیت ہو سکتی ہے مگر حکومت کو دبائو میں لایا نہیں جا سکتا۔ لاپتہ افراد میں سے بہت سے افغانستان، بھارت اور یورپ میں چھپے ہوئے ہیں۔ جہاں سے وہ منفی پراپیگنڈا کر رہے ہیں جبکہ گمشدہ افراد کے لواحقین کے لیے بھی 50لاکھ روپے فی کس امداد کا اعلان  کیا گیا ہے۔ 
پنجاب کی جیلوں میں نادار  قیدیوں کو مفت قانونی امداد ملے گی۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز۔
قیدیوں کو رہائی دلوانا بھی ایک بڑی نیکی ہے۔ ہمارے دین میں اس لیے غریب کو کھانا کھلانے قیدیوں کو آزادی دلوانے کا بڑا اجر ہے۔ اس وقت پنجاب کی جیلوں میں بلامبالغہ ہزاروں افراد رقم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے کیس کی پیروی نہیں کر پا رہے ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو معمولی معمولی جرائم میں برسوں سے بند ہیں۔ یہ بے چارے چند ہزار روپے ادا کرنے سے قاصر ہیں اور جیلوں میں پڑے ہیں۔ کئی ضمانت دستیاب نہ ہونے پر باہر نہیں آ پا رہے۔ ایسے مجبور، بے بس لاچار و نادار قیدیوں کو بعض خداترس لوگ اور نجی ادارے رہائی دلوانے میں سرگرم رہتے ہیں مگر یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ اب حکومت پنجاب نے ایسے نادار قیدیوں کو مفت قانونی امداد مہیا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ان قیدیوں کی رہائی میں معاون ثابت ہو گا اور اس کے ساتھ ہی جیلوں پر قیدیوں کے پڑنے والے بے تحاشہ بوجھ میں بھی کمی لائے گا۔ جس کی وجہ سے وہاں انتظامی مشکلات بھی پیدا ہوتی ہیں اور مسائل بھی بڑھتے ہیں۔ اس وقت جیلوں میں گنجائش سے بہت زیادہ قیدی بند ہیں۔ ان پر ماہانہ کروڑوں روپے اضافی خرچ ہو رہے ہیں اگر یہی رقم ان قیدیوں کی رہائی پر خرچ ہو تو زیاہ بہتر ہے اور بچت کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ ویسے حکومت کی طرف سے جیلوں میں بند قیدیوں کے لیے جس لذت کام و دہن کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس میں چکن والا سالن روزانہ۔ کبھی چاول کبھی روٹی کے ساتھ اور میٹھا بھی دیا جائے گا۔ صبح چائے کے ساتھ کبھی سلائس کبھی پراٹھے کا سْن کر تو بہت سے نادار قیدی یہی کہیں گے کہ انہیں رہائی منظور نہیں قید ہی قبول ہے کیونکہ ایسا کھانا باہر یا گھر میں انہیں کہا دستیاب ہو گا۔ باہر تو انہیں روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں۔ 
ٹرمپ پر حملے کی سازش میں ایک پاکستانی نڑاد دھر لیا گیا۔
نجانے کیوں کسی بڑے سانحہ یا واقعہ میں غیرملکی ایجنسیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر کہیں نہ کہیں سے کوئی پاکستانی تلاش کرنے کے دعویٰ کر لیتی ہیں۔ اب کوئی پوچھے کہ بھائی اگر پاکستانی واقعی ’’اتنے جوگے‘‘ ہوتے تو آج پاکستان یوں پریشان حال نہ ہوتا۔ ہر مشکل اور ناممکن واردات میں بھی کسی نہ کسی پاکستانی کردار کو ملوث کرنے کی یہ کوشش بتاتی ہے کہ پاکستان کے دشمن ہر جگہ فعال ہیں۔ کیا بیرون ملک کیا اندرون ملک،  یہ دشمن ایک اسلامی ایٹمی طاقت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ اب امریکہ میں گزشتہ ماہ الیکشن ریلی کے دوران امریکی صدارتی امیدوار ٹرمپ پر حملہ ہوا۔ گولی ان کے کان کو چْھوتی ہوئی گزری۔ سکیورٹی والوں نے فوری طور پر قریبی عمارت کی چھت سے حملہ آور کو  پکڑ لیا مگر اس سے تسلی نہ ہوئی تو اب کئی دنوں بعد ایک پاکستانی نڑاد آصف مرچنٹ کو گرفتار کیا گیا ہے کہ وہ کئی دنوں سے حملہ وآر کے ساتھ رابطہ میں تھا لہٰذا حملہ میں اس کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔ اب پاکستان مخالف میڈیا اور عناصر کو ایک اور دلچسپ مشغلہ ہاتھ آئے گا۔ وہ کئی کئی دن پاکستان کے خلاف اپنا خبث باطن ظاہر کرتے رہیں گے۔ ابھی تو برطانیہ میں 3 بچوں کے قاتل کا علم ہونے کے باوجود کہ وہ برطانوی شہری ہی ہے۔ غیر ملکی تارکین وطن پْر تشدد مظاہروں کی زد میں ہیں۔ امریکہ والے پہلے ہی پاکستانی شہریوں سے الرجک ہیں۔ خدا خدا کر کے امریکہ نے پاکستانیوں کے لیے اپنے ویزا پروگرام میں نرمی پیدا کی تھی کہ یہ نیا کٹا کھل گیا ہے۔ خدا خیر کرے۔ یہ غیر ملکیوں کی پرانی عادت ہے کہ وہ پہلے کسی پاکستانی کو ٹریپ کرتے ہیں اور پھر سارا ملبہ اس پر ڈال کر اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...