لاہور (خبرنگار) دفاعی تجزیہ نگاروں، سابق سینئر جرنیلوں اور سیاسی رہنماﺅں نے کہا ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر امریکہ کی ڈوبتی جنگ افغانستان کے بھاری جنگی اخراجات کا بوجھ زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکے گی۔ امریکی اب پاکستان پر حملہ کرنے میں محتاط رہیں گے۔ ہمسایہ ملک کی سرزمین سے ہونے والے کسی بھی حملے پر سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ جا سکتے ہیں لیکن یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کس نے امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دی اگر نیٹو فوج کی سپلائی معطل رکھنے اور شمسی ایئربیس خالی کرائے جانے سمیت قومی سلامتی کے تحفظ کے حوالے سے دیگر تمام فیصلوں پر قائم رہے تو یہ ایٹمی دھماکوں سے بڑا فیصلہ ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار (ق) لیگ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کامل علی آغا، جنرل (ر) خواجہ راحت لطیف اور بریگیڈئر (ر) محمد یوسف نے کیا۔ نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ راحت لطیف نے کہا کہ اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ڈرون حملوں کا جواب کیسے دیا جاتا ہے۔ کیا پاک فضائیہ کو ڈرون کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیاگیا ہے؟ پہلے کہا گیا کہ پرویز مشرف نے امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دی لیکن موجودہ حکومت کے دور میں ڈرون حملے بڑھ گئے۔ دیکھنا یہ پڑے گا کہ کون ان حملوں کا ذمہ دار ہے۔ محمد یوسف نے کہا کہ ٹاپ لیڈرشپ نے امریکہ سے جو معاہدے کئے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کے سامنے لائے جائیں۔ پارلیمنٹ توثیق کرے یا منسوخ یہ اس کا اختیار ہے۔ امریکہ ہم پر دباﺅ ڈال رہا ہے۔ اسی دباﺅ کا نتیجہ ہے کہ صدر مملکت دبئی چلے گئے ہیں۔ امریکی ہمیں دباﺅ میں لا کر فیصلے کروانا چاہ رہے ہیں۔ کامل علی آغا نے کہا کہ امداد بند کرنے کی امریکی دھمکیاں گیدڑ بھبکیاں ہیں۔ افغانستان کے امن کے نام پر پاکستان کی سلامتی سے کھیلنے والوں سے دوٹوک بات کرنے کا وقت آگیا ہے۔