50سال کے بعد دونوں ممالک اپنے متنازع مسائل حل کر کے دوستی اور بھائی چارے کی نئی فضا قائم کرنا چاہ رہے تھے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایسے حالات پیدا کر دیے گئے کہ دونوں ممالک پھر ایک دوسرے سے مزید دور ہو گئے۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جمہوریت کی بساط لپیٹتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی دو تہائی اکثریت کی حکومت پر شب خون مارتے ہوئے مارشل لاءلگا کر اقتدار پر قابض ہو گئے۔ اور تاریخ میں پہلی مرتبہ بیک وقت وہ آرمی چیف اور خود ساختہ صدر پاکستان بن گئے۔ پاکستان جو ترقی کی منازل طے کر رہا تھا، ایک بار پھر جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتار دیا گیا۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت رکھنے والی جماعت کے سربراہ اور ان کے خاندان کو ملک بدر کر دیا گیا۔ خود ساختہ 9/11 کے واقعہ کے بعد امریکہ نے اسامہ بن لادن، القاعدہ اور طالبان کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے افغانستان میں اپنی اور اتحادیوں کی فوجیں اتار دیں اور جنرل پرویز مشرف سے کہا کہ پاکستان افغان جنگ میں ہماری مدد بھی کرے اور اپنی سرزمین سے افغانستان میں کارروائی کرنے کیلئے فوجی اڈے فراہم کرے اور لوجسٹک راہداری بھی فراہم کرے۔ امریکہ کی ایک کال پر کمانڈو آرمی چیف نے پاکستان کی سالمیت، خود مختاری، خودداری اور استحکام کو داﺅ پر لگاتے ہوئے ان کی ہر بات پر لبیک کہا جس کی وجہ سے پاکستان کی سرزمین عالمی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں بفر اسٹیٹ بن کر رہ گئی۔ اور پاکستان امریکہ کے مفادات کی جنگ میں پھنستا چلا گیا۔ میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ پاکستان میں غیرسیاسی قوتوں کا متحد ہو کر مقابلہ کریں گے اور پاکستان کو ایک بار پھر جمہوریت کی پٹڑی پر لانے کیلئے اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جدوجہد کریں گے۔ میثاق جمہوریت کے معاہدے کی ابھی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے خفیہ ملاقاتیں شروع کر دیں اور دوبئی میں ایک اور ملاقات کی اور ایک ڈیل کے تحت بے نظیر کو پاکستان آنے کی اجازت مل گئی اور وہ اپنی خود ساختہ جلا وطی ختم کر کے پاکستان پہنچ گئیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں زور شور سے شروع کر دیں۔ اسی دوران بین الاقوامی دباﺅ کے تحت میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کوبھی واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انہوں نے بھی اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیات نے حکومت کی غلط پالیسیوں کے باوجود عوام کی رہنمائی کرتے ہوئے ہر غلط اقدام پر اسمبلی کے فلور پر جلسوں میں سیمینار اور پبلک میٹنگ میں غرضیکہ ہر موقع پر حکومت کے غلط اقدامات کی نشاندہی کرتے ہوئے عوام کے حقوق اور پاکستان کے استحکام کیلئے اپنی جدوجد جاری رکھی۔ لیکن ایسی تحریک سے گریز کیا جس سے جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتر جائے۔ اور انہوں نے فرینڈلی اپویشن کے طعنے بھی برداشت کئے۔ میاں محمد نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کی ملکی مفاد میں بہترین حکمت عملی کی ہی وجہ سے حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے منشور روٹی کپڑا اور مکان کی جگہ حکومت نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور میں پاکستان کے عوام کو مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی اور کرپشن کے سوا کچھ نہ دیا۔ ناکام خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان آج تنہائی کا شکار ہے۔ چین، او آئی سی اور دیگر ممالک کی کشمیریوں کے حق میں بھرپور سپورٹ کے باوجود حکومت پاکستان کے اس اہم ایشو پر کوئی پیش رفت نہ کر سکی۔ بھارت کشمیر سے آنے والے دریاﺅں پر بے شمار ڈیم بنا کر پانی کا رخ توڑنے میں کامیاب ہو گیا جس سے پاکستان کی زراعت، اقتصادیات، معاشیات میں بے شمار مسائل کا اضافہ ہو گیا اور اس بات کا خطرہ بڑھ گیا کہ کہیں پانی پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ نہ چھڑ جائے۔ پاکستان کے آمدہ انتخابات میں پاکستان کی عوام کو اپنی ذاتی پسند و ناپسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسی قیادت اور ایسی جماعت کو منتخب کرنا پڑے گا جو عوام کو مسائل کی دلدل سے نکال کر خوشحالی کی طرف گامزن کر سکے اور پاکستان کو خوددار، خوشحال پاکستان بنا سکے۔