بھارت کا مستقبل .... ڈاکٹر امبیدکر کی نظر میں

برطانوی دانشور اور صحافی بیورلے نکلس اپنی کتاب ”محاکمہ ہند“ Verdicl- on India میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر امبیدکر ہندوستان کے چھ قابل اور بہترین اذہان/ افراد میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر امبیدکر اچھوت لیڈر تھے جنہوں نے امریکہ اور برطانیہ کی بہترین جامعات سے قانون، معیشت، سیاست اور معاشرت میں اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ ہندوستان کی تحریک آزادی ڈاکٹر امبیدکر کی جدوجہد کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ڈاکٹر بھیم راﺅ امبید (14.4.1891 تا 6.12.1956 ) تقریباً 5 ہزار سال سے برہمن ہندو کی غلام اچھوت اقوام کے پہلے عظیم قائد ہیں جنہوں نے ان مظلوم اور محروم ہندی/ بھارتی عوام کے بنیادی انسانی حقوق کیلئے قابل قدر آئینی خدمات سرانجام دی ہیں۔ ڈاکٹر امبیدکر کی تحقیقات کے مطابق کروڑوں اچھوت عوام بت پرست ہندو نہیں۔ یہ بدقسمتی سے ہندو معاشرے میں پیدا ہوئے ہیں اور ہندو برہمن نے ان مظلوم اقوام کو اپنے ذات پات اور اونچ نیچ کی ظالمانہ پالیسی کا شکار بنا کر ان کا حافظہ اور تاریخ چھین لیا ہے۔ یہ تعداد میں ہندو برہمن سے کئی گنا زیادہ ہیں مگر مکار برہمن نے اچھوت عوام کو پورے بھارت میں بکھیر رکھا ہے۔ ڈاکٹر امبیدکر کی انگریز ہندی سرکار سے اپیل تھی کہ وہ ہندوستان چھوڑنے سے قبل اچھوت اقوام کی علیحدہ شناخت اور ریاست کو یقینی بنائیں وگرنہ ہندوستان کی نام نہاد آزادی اچھوت عوام کی نئی برہمنی غلام کا آغاز ہو گا۔ ڈاکٹر امبیدکر مہاتما گاندھی کو اچھوت عوام کا بدترین دشمن قرار دیتے ہیں جبکہ بھارت کے معروف صحافی دانشور کلدیپ نیر لکھتے ہیں کہ جنوبی بھارت میں ڈاکٹر امبیدکر کی مقبولیت گاندھی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ڈاکٹر امبیدکر آزاد بھارت کے پہلے آئین ساز وزیر قانون تھے جنہوں نے بھارتی آئین کو سیکولر اور جمہوری بنایا۔ ڈاکٹر امبیدکر نے آئین کی منظوری کے وقت پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے بھارتی سرکار کو چند بنیادی اہمیت کی حامل تجاویز دیں جو بھارت کی جغرافیائی سلامتی کیلئے خشت اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بھارت امریکہ کی طرح ایک ریاست نہیں ہے یہ ریاستہائے متحدہ انڈیا ہے جس کو USI (United States OF India) کہا جائے۔ شمالی اور جنوبی انڈیا دوجداگانہ اکائیاں ہیں جن کے اتحاد نے انڈیا کو عزت، عظمت اور عالمی وقار دیا ہے۔ جنوبی بھارت کی ترقی اور عوامی بھلائی کیلئے ضروری ہے کہ جنوبی باشندوں کی زبان، تہذیب و تمدن، تاریخ اور کلچر کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جنوبی بھارتی عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کیلئے انڈیا کو دو انتظامی یونٹوں میں بانٹ دیا جائے۔ جنوبی اور شمالی انڈیا میں خاصا فاصلہ ہے۔ عام جنوبی باشندہ شمالی انڈیا کی زبان نہیں جانتا۔ نیز سرکاری معاملات کو نبٹانے کیلئے غربت جنوبی شہری کو دہلی آنے کی تکلیف اور زحمت سے بچایا جائے جن کیلئے ضروری ہے کہ ریاست ہائے متحدہ انڈیا کے دو وزیراعظم دو دارالحکومت دو قومی زبانیں اور دو انتظامی یونٹ ہوں جبکہ بھارتی وزارت خارجہ اور دفاع مشترکہ ہوں۔ ڈاکٹر امبیدکر نے مزید کہا کہ انڈیا کی سلامتی کا راز سیکولرزم میں ہے اگر انڈیا میں رام راج کی سرکاری کوشش کی گئی تو یہ انڈیا کو ایک نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی میں مبتلا کر دے گا جو بھارتی سلامتی کیلئے مہلک ہو گی۔ آئین برا یا بھلا نہیں ہوا اسکے چلانے والے اسے برا اور بھلا بناتے ہیں۔ اگر حکومت امور سلطنت کو جمہوری کے بجائے موروثی اور جماعتی بنیاد پر چلانے کی کوشش کریگی تو اس سے عوام میں بے چینی، بے یقینی اور اضطراب پیدا ہو گا جو انڈیا کو ماضی کی طرح چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بانٹ دے گا جس کا حتمی نتیجہ کابل سے دہلی آنے والے غزنوی، غوری اور ابدالی حکمرانوں کی شکل میں نکلے گا جو انڈیا کی مظلوم اور محروم عوام کے لئے نجات دہندہ ثابت ہونگے۔ ڈاکٹر امبیدکر نے انڈیا کے شہریوں کیلئے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے اونچ، نیچ اور ذات پات پر مبنی ورن آشرم Casteism کو آئینی جرم قرار دیا اور برملا کہا کہ ہندو مت ذات پات کی تقسیم کا مذہب ہے۔ اگر انڈیا میں برہمن، کھشتری، ویش اور شودر کی تقسیم باقی ہے تو انڈیا کی سلامتی عارضی ہے لہٰذا ڈاکٹر امبیدکر نے پارلیمان میں ہندومت میں اصلاحات کا بل پیش کیا جس کو Hindu Code Bill کہا جاتا ہے۔ ہندو کو ڈبل جاتی کی ہندو برادری نہرو وغیرہ برداشت نہ کر سکے لہٰذا ڈاکٹر امبیدکر کو وزارت قانون سے استعفیٰ دینا پڑا۔ بھارتی سرکار نے ذات پات کی تقسیم پر مبنی Casteism کو آئینی جرم قرار دیا ہے مگر سرکاری سطح پر اچھوت عوام کی زندگی بد سے بدتر بنائی جا رہی ہے اگر بھارتی سرکار کی اچھوتوں کے بارے میں یہی منفی پالیسی جاری رہی تو اچھوت اقوام کو حق حاصل ہے کہ بھارت کی کسی بھی بڑی قومیت کے ساتھ مل کر ہندو برہمنی استعمار سے نجات کیلئے متحدہ تحریک چلائیں۔ آج انڈیا میں کئی مقامات بالخصوص جنوبی بھارت میں ”مسلم، اچھوت اتحاد، مسلم دلت اتحادی“ پر مبنی تحریکیں جاری ہیں جبکہ تامل گوریلا اور نیکسیلائٹ علیحدگی پسند تحریکیں بھی سرگرم ہیں۔ ڈاکٹر امبیدکر ایک حقیقت پسند سیاستدان تھے جنہوں نے جنوبی و شمالی اقوام کی روایتی تاریخی مخاصمت اور چپقلش کو دوراندیشی پر مبنی منصفانہ انتظامی حکمت عملی کی پالیسی میں ڈھالنا چاہا تھا مگر ہندو برہمن نے بات نہ مانی لہٰذا جنوبی بھارت میں کئی علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم ہیں اور یہ تحریکیں اتنی فعال اور موثر ہیں کہ نہرو کے نواسے اور اندرا کے بیٹے راجیو گاندھی کو جنوبی بھارت میں ہلاک کیا گیا جب وہ بحیثیت وزیراعظم بھارت جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ ڈاکٹر امبیدکر کی اچھوت اقوام شودر سے بدتر حیثیت کی حامل ہیں۔ شودر Touchable ہے جس کو برہمن چھو سکتا ہے کیونکہ بقول اسکے یہ شودر آریائی برہمن کی غیر قانونی اولاد ہیں جبکہ اچھوت مقامی قدیمی ہندی حکمران ہیں جو درواڑی کہلاتے ہیں اور نسلاً آریائی نہیں ہیں اور آریائی برہمنیت کے خلاف جہد مسلسل کی نشانی ہیں۔ بھارت کانچ کا گھروندہ ہے جو فی الحال اپنے عالمی اتحادی حلیف برادری کی مدد سے پاکستان اور افغانستان میں بے جا مداخلت سے باز نہیں آ رہا۔ پاک افغان خطے میں ہندو برہمن کے خلاف شدید مزاحمت ہے۔ اگر خطے میں اکھنڈ بھارت کی برہمنی مداخلت جاری رہی تو خطے کے مسلمان اپنی بقا اور جداگانہ سلامتی کے لئے مزاحمت کے بجائے جارحانہ پالیسی بھی اپنا سکتے ہیں جس کا بھارت متحمل نہیں ہو سکتا لہٰذا بھارتی سرکار کو ڈاکٹر امبیدکر کی حقیقت پسند اور منصفانہ کشمیر پالیسی کو اپنانا چاہئے جب اپنے ملک کے اندر کروڑوں مظلوم اور محروم عوام بستے ہوں تو پاکستان کی شکست و ریخت کی پالیسی سے باز رہنا چاہئے وگرنہ پاک افغان خطے سے دوبارہ غزنوی، غوری اور ابدالی کو دہلی پہنچنے میں دیر نہیں لگے۔ آہ شودر کے لئے ہندوستاں غم خانہ ہےدرد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے

ای پیپر دی نیشن