پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی

پروفیسر حکیم عنایت اللہ سوہدروی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے اٹھارہ سال ہو گئے ہیں لیکن ان کی دیانت و امانت، حق پرستی اور حق گوئی، قوم اور ملک کے لئے فلاحی جذبہ، اور سب سے اہم توحید پرستی، دین اسلام کی عالمگیریت اور نبی اکرم کی تعلیمات سے گہری وابستگی اور طب نبوی کی خدمت کا تذکرہ اب بھی والہانہ انداز میں ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت اور قومی کارناموں پر دو کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ”پاکستان کا ایک بطل حریت“ اور ”حیات نسیم“ .... اول الذکر کتاب کا پیش لفظ نواب زادہ نصراللہ خان نے لکھا اور اعتراف کیا کہ ”وہ بیک وقت بلند پایہ طبیب، اعلیٰ درجے کے خطیب، نڈر صحافی، بہترین شاعر اور قومی و سیاسی کارکن تھے۔ آزادی وطن کی جنگ میں پیش پیش رہے۔ پھر تعمیر و استحکام وطن میں سرگرم میں عمل رہے، ہر ملی تحریک میں بھرپور دلچسپی لی مگر جس تحریک یا جماعت میں شامل ہوئے۔ بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کی طرح، اس کا واحد مقصد، اسلام اور ملت اسلامیہ کی سربلندی رہا۔ وہ سچے اور پکے مسلمان تھے۔“قومی و نظریاتی اخبار ”نوائے وقت“ کے مدیر اعلیٰ جناب مجید نظام نے متذکرہ کتاب کے دیباچہ میں حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی، کو عقائد، نظریات، انسانوں اور اولادوں سے نسبتیں قائم رکھنے والا انسان شمار کیا اور لکھا کہ ”پاکستان کے عظیم رہنماﺅں میں انہیں علامہ اقبال، مولانا محمد عل جوہر اور قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کا شرف بھی حاصل تھا اور ان سب سے ان کا تعلق نظریاتی طور پر تاحیات مضبوطی سے قائم رہا.... ”نوائے وقت“ سے ان کا تعلق بانی نوائے وقت حمید نظامی کی زندگی میں شروع ہو گیا تھا اور حمید نظامی صاحب کے سانحہ ارتحال تک قائم رہنے کے بعد میری طرف منتقل ہو گیا اور کبھی ختم نہ ہوا.... ان کا آخری مضمون جو انہوں بستر علالت پر لکھا تھا ”نوائے وقت“ میں ان کی وفات کے چھ روز بعد شائع ہوا۔ ان کے بعض تاریخی مضامین قند مکرر کے طور پر نوائے وقت کے صفحات پر اب بھی پیش کئے جاتے ہیں۔“جناب مجید نظامی کے آخری جملے کا مفہوم واضح ہے کہ نوائے وقت کے ساتھ حکیم عنایت اللہ نسیم کا ناتہ اب بھی جڑا ہوا ہے اور انکے اس دور کے ارشادات آج کے زمانے میں بھی صادق نظر آتے ہیں اور ان سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ جناب عنایت اللہ نسیم 10ستمبر 1910ءکو وزیر آباد (گوجرانوالہ) کے نواحی قصبہ نما شہر سوہدرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کو اپنے ایام طفولیت میں مولانا ظفر علی خان کا دست شفقت حاصل ہو گیا تھا اور انہیں کے مشورے پر وہ میٹرک کے بعد مزید تعلیم کے لئے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخل ہو گئے تھے۔ علی گڑھ کی فضا نے انہیں دینی اور قومی خدمت کی طرف راغب کیا۔ چنانچہ انہوں نے ایک طرف علی گڑھ میں قادیانیت کے غلبے کو روکا تو دوسری طرف تکمیل تعلیم کے بعد جدوجہد پاکستان میں حصہ لیا۔ ان کا مطب بلند شہر میں تھا اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ہندوﺅں نے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا لیکن ان کی جان اوز عزت کی حفاظت کرنے والے راجپوت خاندان کے لوگ بھی اسی شہر میں موجود تھے۔ چنانچہ حکیم صاحب کو حفاظت سے پاکستان پہنچا دیا گیا۔ پاکستان میں انہوں نے اثبات و استحکام وطن کے امور میں گہری دلچسپی لی۔ عملی طور پر تحریکوں میں شرکت کی۔ طب نبوی کے فروغ میں ہمدرد دوا خانہ کے بانی حکیم محمد سعید کا ساتھ دیا اور اس کے ساتھ ہی تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ”رسول کائنات“، ”مولانا ظفر علی خان اور ان کا عہد“ اور ”علی گڑھ کے تین نامور فرزند“ ان کی تین کتابیں شائع ہو کر قبول عام حاصل کر چکی ہیں۔ چنانچہ 9دسمبر 1994ءکو چند روزہ بیماری کے بعد وفات پا گئے۔ روزنامہ نوائے وقت نے تعزیتی شذرے میں لکھا: ”ان کی وفات سے قومی حلقے ایک محب وطن پاکستانی سے محروم ہو گئے ہیں“اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے جناب عنایت اللہ نسیم کے صاحبزادے حکیم راحت نسیم کو خط میں لکھا: ”آپ کے عظیم والد عنایت اللہ نسیم کی وفات پر مجھے شدید صدمہ ہوا ہے۔ وہ تحریک پاکستان کے ایک بہت بڑے کارکن تھے۔“ حکیم حمید سعید ان دنوں گورنر سندھ تھے۔ ان کا ارشاد تھا:”حکیم عنایت اللہ نسیم ایک عظیم انسان تھے۔ وہ میدان طب کے دیانتدار سپاہی تھے۔“ 

ای پیپر دی نیشن