” ریلیاں۔فلسفہ و افادیت“

” ریلیاں۔فلسفہ و افادیت“

وطنِ عزیز میں گزشتہ 14سال سے جس طرح حالات بدلتے آئے ہیں وہ سبھی غیر معمولی تھے مگر ان میں سے یہ چودھواں سال یعنی 2013 ءبالکل مختلف نوعیت کا ہے۔ اس سال کے دوران قیادتوںپر عدمِ اعتماد، اداروں کا مفلوج ہونا، عوامی معاملات میں ارباب اقتدار کی بے حسی اور عوام کی بے بسی کے ساتھ کانپتی چیخیں بالکل واضح ہوگئیں۔ سال کے آخری مہینے میں جماعت اسلامی، عمران خان کی تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک نے مہنگائی، کرپشن، بیروزگاری اور ڈرون حملوں کیخلاف ریلیاں نکالنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ چونکہ تینوں جماعتوں نے ابھی تک اقتدار کی گاڑی کھینچنے کا مظاہرہ نہیں کیا اور نقطہ ہائے احتجاج پر بھی عوام میں دو رائے نہیں ہیں ‘اس لئے اصولاً تو پوری قوم کو ہر قسم کی سیاسی و گروہی ترجیحات سے بالا تر ہو کر ان کو سپورٹ کرتے ہوئے اپنی قسمت کو بدل لینا چاہیے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اسکی بڑی وجہ ماضی میں اس طرح کی ریلیوں کا لاحاصل بکھر جانا ہے کیونکہ احتجاج کی قیادت کرنیوالوں کے پاس واضح مقاصد اور انکی تکمیل کے ایماندارانہ منصوبے نہیں ہوتے تھے۔ صرف دو ریلیاں کامیاب ٹھہریں ایک تو PNA کی ریلی تھی جس میں سے ایک عشرے کیلئے جنرل ضیا ءالحق صاحب مل گئے اور دوسری آزاد عدلیہ کی بحالی جس کے دورس نتائج ابھی تاریخ کو اخذ کرنے ہیں۔ ریلیوں کے انعقاد میں قوم کا بہت سارا وقت، وسائل اور امن جاتا رہتا ہے۔ خصوصاً ناکامی کی صورت میں باہمی اعتماد اور ایک عرصے کیلئے نئی صبح کی امید بھی معدوم ہو جاتی ہے۔ اس بار ماحول میں موجود حدت کی بدولت ریلیوں کے دوران زیادہ خطرات و اخراجات کے باوجودعوام کی منقسم سی شمولیت متوقع ہے۔ لہذا اگر گہرے غور و غوض کے ساتھ جامع پلاننگ نہ کی گئی تو نتیجہ قوم میں مزید بے چینی اور انار کی کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ پرامن جلسے جلوس اور ریلیاں عوام کا جمہوری حق ہے۔کوئی حکومتی پالیسی یا بین الاقوامی وقوعہ جسے عوام اپنے لئے تکلیف دہ سمجھتے ہوئے بین الاقوامی قوانین، اخلاقی، معاشرتی یا مذہبی بنیادوں پر مسترد کرتے ہوں ‘اس سے پیدا ہونیوالے اضطراب کا اظہار ریلیوں کی صورت میں کیا جاتا ہے جس کا مقصد عوام کی آواز کو یکجا کرنا، اپنی حکومت کو عوام کا ہمنوا بنانا اور بین الاقوامی رائے عامہ کو اپنے موقف کے حق میں ہموار کرنا ہوتا ہے۔ اگر اپنی حکومت کوئی غیر آئینی کام کرے تو اس کا ریلیف عدالتوں سے مل سکتا ہے مگر وہ اقدامات جو غیر آئینی تو نہ ہوں لیکن ان سے عوام کی سانس رکتی ہو تو وہ اس میں شامل کر لئے جاتے ہیں۔ جیسے مہنگائی ،معاشرتی و شہری حقوق میں عدم توازن اور وائٹ کالر آرگنائزڈ کرائم کے چرکے وغیرہ۔ اسکے علاوہ دوسری قوموں کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور ایجادات کی بدولت اپنی سوسائٹی کے اندر کچھ روّیے زور پکڑ جاتے ہیں جنہیں اپنے آئین‘ قوانین اور تہذیب سے ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے اس کیلئے بھی یہ مظاہرے کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگر عوام کی دل لگتی بات پر اکسا کر انہیں اکٹھا کر لیا جائے اور پھر کسی مخفی طریقے سے اس طاقت کا استعمال کسی ذاتی یا گروہی مفادات کیلئے کیا جائے تو یہ سب سے بڑا دھوکہ اور قوم کے ساتھ بد دیانتی ہوتی ہے۔
ماضی میں ہمارے ہاں مو¿خرالذکر طریقہ ہی سیاسی مخالفین کی حکومت کو کمزور کرنے اور عوام میں اپنے نمبر بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے جس سے اب قوم کو چوکنا رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے لئے مہنگائی ، کرپشن اور دہشت گردی کیخلاف موثر اقدام اٹھانا لازم ہو چکے ہیں مگر جتنی شدّت ان اقدام کی اہمیت میں ہے اس سے کہیں زیادہ انکی منصوبہ بندی کیلئے ہونی چاہیے۔ تمام ہموطنوں کو کسی ریلی میں شمولیت کروانے سے پہلے ریلی کی مقصدّیت، طریقہ کار اور اسکے قابل ِعمل ہونے کا یقین کر وانا چاہیے۔ہم پہلے کی طرح ریلیاں کسی فرد کی خاطر سجائے گئے میلے کے طور پر قبول نہیں کر سکتے جس میںخوشامدی پروٹوکول ، اچھا کھانا پینا، پکنک واک اور خالی جھولی گھروں کو لوٹنا ہو۔ حالات نہایت سنجیدگی کے متقاضی ہیں کیونکہ وطنِ عزیز میں برائی کے چھوٹے چھوٹے مربوط گروہ انفرادی گھٹن میں مبحوس خلقِ خدا کو مغلوب کر چکے ہیں اور وہ انکے سینے پر اتنی آسانی سے بیٹھے ہیں کہ انہیں اُن آئینی ، قانونی معاشرتی یا اخلاقی طاقت کا ڈر ہی نہیں رہا جس کی دہائی مغلوب کی چیخ میں کبھی کبھی سنائی دیتی ہے۔ تاریخ میں عموماًایسے حالات خونیں انقلاب اور پھر انقلاب در اانقلاب کی طرف لے کر جاتے ہیںجس کے ہم فی الوقت متحمل نہیں ہو سکتے ۔ہمارے لئے اس وقت بہترین اور ناگزیر حل پبلک سوموٹو ہے۔ عوام مجتمع ہو کر‘ بغیر کوئی نقصان کیے‘ استحصالی طبقے کو مجبور کر دیں کہ وہ آئین اور قانون میں رکھے گئے صوابدیدی اختیارات کے ان سوراخوں کو بند کر دیں جہاں سے 98 فیصد عوام پر محکومیت کا لاوا گرایا جاتا ہے۔ یعنی عوام آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے بدنیتی پر مبنی سسٹمز کو نظر انداز اور کمزور کئے گئے اداروں کو مضبوط کرتے ہوئے از خود اپنے آئین کے آرٹیکل 2-A (قرار دادِ مقاصد) کے مطابق اپنا حق حاصل کر لیں۔ مختصراً شیطان کے نظریہ ضرورت سے زخم زخم قوم کیلئے یہ رحمٰن کا نظریہ ضرورت ہے۔ ہر ریلی میں جانے سے پہلے جہاں عوام کو دیئے گئے نعرے پرکھنے کی دعوت دی جارہی ہے وہاں ریلی بلانے والوں کو بھی اپنا عام فہم پلان سامنے لانا ہوگا۔ مثلاً ”مہنگائی ختم کرو“ کے دو ہزار بینرز اور دو لاکھ نعروں سے مہنگائی ہرگز ختم نہیں ہو سکتی۔ اسکی جگہ اگر پہلے بستی بستی میں مہنگائی کیخلاف مدافعاتی کمیٹیاں تشکیل دینے کی دعوت دی جائے اور پھرربط ِ باہمی کیلئے انہیں ریلی میں شمولیت کیلئے بلایا جائے تو ہی فالواپ مضبوط اور نتائج بہتر ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح کرپشن اور دہشت گردی ختم کرنے کے نعروں کا نعم البدل سٹریٹ آرگنازیشن کا ریلی سے پہلے قیام اور اسکے بعد انہیں سوسائٹی کو مربوط کرنے کیلئے ریلی میں شمولیت کی دعوت ہے۔
اس طرح کی عوامی طاقت کیلئے بلدیاتی ادارے خاصے کارآمد ہو سکتے ہیں اور شاید اسی لئے استحصالی اشرافیہ آئین کے آرٹیکل 140-Aکی کھلم کھلا خلاف ورزی کر تے اور سپریم کورٹ کو جھول دیتے ہوئے یہ ادارے کبھی نہیں بناتی۔ یہ آئینی نقطہ بذات خود کسی ریلی کا مضبوط موقف بن سکتا ہے اور نتیجہ خیز بھی ہوگا۔ اسی طرح اور بہت سارے فکر انگیز پہلو ہیں جو کسی ایک کالم میں نہیں سما سکتے۔ ہمیں من حیث القوم سوچ سمجھ کر با مقصد قدم اٹھانے ہیں۔ اگر ریلیوں کے اختتام پر امرا ءنے اپنے محلّات میں جا کر استراحت سے قوم کے غموں پر غور کرنا ہے اور غرباءنے ریلیوں کے دوران حاصل کردہ ٹوٹی جوتیوں اور چوٹوں سے اٹھتی ٹیسوں کے ساتھ پھر سے اپنے جھونپڑے میں مانوس زندگی اور ٹھنڈی آہوں کا سہارا لینا ہے تو یہ ریلیاں اور جلوس وغیرہ معاشرے کیلئے فائدے کی بجائے نقصان دہ ہیں ۔ جس طرح ہمیشہ طاقتوروں نے عوامی طاقت کو جلسے جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے اپنے مقاصد کےلئے استعمال کیا ہے۔ اب اسی طرح اُن کی سجائی گئی ریلیوں کو عوام کا اپنے آئینی مفاد کو حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنے کا موقع ہے۔عوام ہر نعرے کے فالو اپ کا روڈمیپ مانگیں اور اگر نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہو تو پھر ان ریلیوں کو مقصد کے حصول تک منتشر نہ ہونے دیں۔ حالات کیمطابق انہیںہائی جیک بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یا تو استحصالی طبقہ خود سمٹ جائیگا یا واقعی عوامی لیڈر بن کر نیک نیتی سے عوام کے دکھوں کا مداوا کر نے لگ جائینگے۔پاکستان کے تمام مسائل کا حل مربوط سوسائٹی کے قیام میں ہے اور اسے حقیقت بنانے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر استوارریلیوں کے ذریعے PUBLIC SUOMOTO کا وقت آن پہنچا ہے۔ ہاتھ تھامنے والے کا فیصلہ بھی ذہن میں بٹھا لیں۔ ”ان اللہَ لاَیُغّرِ ما بقُومِ حتّیٰ یَغیرُ ماَباَنَفسِھِم“       

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...