معاملہ یہاں تک تو پہنچ گیا کہ جب ایک سنی عالم پر قاتلانہ ہوتا ہے تو اذہان میں فکرمندی اور تشویش کا جوار بھاٹا اٹھنے لگتا ہے۔ اب کون سا شیعہ عالم نشانہ بنے گا۔ جب شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتے ہیں تو ذہنوں میں یہ خوف کچوکے لگانے لگتا ہے اب کون سے سُنی لقمہ اجل بنیں گے۔ کراچی شیعہ عالم علامہ دیدار جلبانی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے تو شعوری اور لاشعوری طور پر سوچوں کے دھارے اس سمت بہنے لگے تھے کہ اب خدا خیر کرے کسی سنی عالم کی باری ہے اور صرف 3دن بعد ہی ان سوچوں کو سفاک قاتلوں نے حقیقت کا روپ دے دیا اور اہلسنت والجماعت پنجاب کے صدر مولانا شمس الرحمان معاویہ نماز جمعتہ المبارک پڑھانے کے بعد واپس گھر جا رہے تھے کہ قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ کیا اب خدانخواستہ اسکے بعد کسی شیعہ عالم کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
شیعہ سُنی مناقشہ آج کی بات نہیں، یہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ اگرچہ ظاہری مماثلتیں حیرت انگیز طور پر یکساں ہیں مگر فقہی مسائل میں اختلاف ہے جس کے باوجود یہ دونوں فرقے صدیوں سے ایک ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں۔ دنیا سے نہ شیعہ ختم ہو سکتے ہیں نہ سُنیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ جب یہ دو ایسی حقیقتیں ہیں کہ جو مٹ نہیں سکتیں تو پھر انہیں مٹانے کی سعی لاحاصل کی بجائے دونوں جانب سے معتدل مزاج علمائے کرام مل بیٹھ کر بقائے باہمی کا سمجھوتہ کیوں نہ کر لیں۔ 1980ء میں مفتی باقر حسین کی سربراہی میں نفاذ فقہ جعفریہ کی تحریک منظم کی گئی۔ اسکے جواب میں 1985ء میں انجمن سپاہ صحابہؓ نے جنم لیا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پہلی مرتبہ فقہ جعفریہ اور فقہ حنفیہ کے نفاذ کے مطالبات نے محاذ آرائی کی شکل اختیار کر لی۔ شیعہ سنی اختلافات کو حساس موضوع قرار دیکر اس پر کھلے مکالمہ سے اجتناب کیا جاتا رہا۔ یہ قالین کے نیچے گرد چھپا کر صفائی ظاہر کرنے کی کوشش ہے۔ آج ان اختلافات نے ملک کیلئے جو سنگین صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ شیعوں اور سنیوں کی جانب سے ایک دوسرے کیلئے عام معافی کا اعلان کیا جائے۔ کس کا قصور ہے، کون بے گناہ ہے اسے ماضی کا بھیانک خواب جان کر فراموش کر دیا جائے۔ شیعوں کے نزدیک سنی اور شیعوں کے نزدیک شیعہ جو بھی حیثیت رکھتے ہوں ان دونوں کے پاکستانی ہونے سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان دونوں کے انفرادی اور اجتماعی مفادات کا پاکستان سے وابستہ ہونے سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان انشااللہ قیامت تک رہے گا۔ اور اس پیارے پاکستان میں شیعوں اور سنیوں کا بھی نسل در نسل وجود باقی رے گا۔ اس بنیاد پر ہی جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا تھا بقائے باہمی کا سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ملی یکجہتی کونسل کو سرگرم کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے مولانا عبدالستار خان نیازی کے فارمولے کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ یا مل بیٹھ کر کوئی متفقہ فارمولا تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
سنیوں اور شیعوں کے مابین بقائے باہمی کا سمجھوتہ
Dec 08, 2013