صاحبِ خلقِ عظےم

اےک دن سرکاردوعالم تشرےف فرماتھے۔ کہ اےک شخص دور دراز کا سفر طے کر کے آپ کی خدمتِ اقدس مےں حاضر ہوا۔اسکا علاقہ شدےد قحط کا شکار ہوچکا تھا،اور سروسامان زندگی ناپےد ہوگےا تھا۔حضور اکرم کی سخاوت کا شہرہ سنا توآپ کے پاس پہنچا ۔ اور گزارش کی کہ ےا رسول اللہ! ہمارا علاقہ کئی مہےنوں سے قحط کا شکار ہے ، بارش کا اےک قطر ہ آسمان سے نہےں ٹپکا۔تالاب اور جوہڑ خشک ہو چکے ہےں اور غذا کیلئے کچھ بھی مےسر نہےں ۔آپ کی سخاوت کا چرچا سن کر حاضر ہوا ہوں مجھے کچھ عناےت فرمائےے ۔ےہ اتفاق تھاکہ جس وقت اس شخص نے دستِ سوال درازکےا ۔ آپ کے پاس تھوڑی سی کھجورےں موجود تھےں ۔آپ نے فرماےا ساری کھجورےں تم لے لو ۔وہ توبہت زےادہ کی امےد لے کر آےاتھا ۔بڑاماےوس ہوا، اورچلانے لگا کہ مےں آپ کو بڑاسخی سمجھ کر حاضر ہواتھا۔آپ مےر ے ساتھ کےاسلوک کررہے ہےں الغرض جو کچھ منہ مےں آےا کہتا چلا گےا۔اس بد تہذےبی پر صحا بہ کرام کا طےش مےں آنا اےک فطری عمل تھا ۔ان کے ہاتھ بے ساختہ تلواروں کے دستوں کی طرف گئے۔ آپ نے صحابہ کے تےور دےکھے تو فرماےا اتنا غصہ کرنے کی ضرورت نہےں ےہ مےر امہمان ہے ۔مےں جانتا ہوں کہ اس کے ساتھ کےا سلوک کر نا ہے۔صحابہ کے ہاتھ رک گئے اور وہ شخص بڑبڑاتا ہوا مسجد سے باہر چلاگےا۔کچھ دےر بعد اللہ رب العزت کے کرم سے کھجوروں سے لد ے بہت سے اونٹ آپ کے پاس آگئے،اور کھجوروں کا ڈھےر لگ گےا۔آپ نے پوچھا تمھارا صبح والا بھائی کہاں ہے۔لوگوں نے کہا کہ وہ غصے کی حالت مےں مسجد سے نکل گےا تھا آپ نے فرماےا اُسے تلاش کر کے لے آﺅ۔چنانچہ تلاش بسےار کے بعد اسے آپ کی بارگاہ مےں پےش کےا گےا۔آپ نے اسے فرماےا کھجوروں کا ڈھےر دےکھ رہے ہو۔جتنا چاہو لے لو جب تم راضی ہوجاو¿ گے پھر کسی اور کو ملے گا۔اور اگر تم سارابھی لے جاو¿تو کوئی مما نعت نہےں ۔وہ خوشی سے پھولا نہےں سماےا۔ اپنے اونٹوںپر اتنا لاد لےا کہ ان کیلئے اُٹھنا دشوار ہوگےا ۔ پھراس نے بڑی وارفتگی سے جنا ب رسالت مآب کی تعرےف شروع کردی ۔اس کے تعرےفی کلمات سن کر صحابہ کرام کا انقباض دور ہوگےا اوران کے چہر ے پھولوں کی طرح کھل اُٹھے ۔حضور نے ےہ منظر دےکھا تو صحابہ سے پوچھا۔صبح جب ےہ ناراض ہو رہاتھا ، اگر تم اسے قتل کردےتے تو اس کا ٹھکانہ کہاں ہوتا۔انھوں نے عرض کی بلاشبہ جہنم مےں۔ آپ نے پوچھا اب اگر اسے موت آجائے تو اس کا مقام کہاں ہو گا۔ انھوں نے عرض کیا ےا رسول اللہ! بلاشبہ جنت الفردوس کی بہارےں اس کی منتظر ہوں گی۔ حضور نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرماےا۔اے مےر ے صحابہ مےری اور تمہاری مثال اےسی ہے کہ جےسے کسی کا اونٹ بھاگ گےا۔ لوگ اسے پکڑنے کیلئے دوڑ ے لےکن وہ لوگوں کی آوازےں سن کر مزےد بدک کےا ۔ اتنے مےں اسکا مالک آگےا۔وہ کہنے لگا اے لوگو! تم اپنی توانا ئےاں ضائع نہ کرو ےہ مےر ااونٹ ہے اور مےں ہی جانتا ہوں کہ اسے کےسے پکڑنا ہے۔پھر اس نے سبز چارہ اپنی جھولی مےں ڈالا اونٹ کو مخصوص انداز مےں بلاےا ،اونٹ نے مانوس آواز سنی تو فوراً پلٹ آےا ۔مجھے معلوم ہے تمھےں کس طرح اللہ کی بارگاہ مےں لانا ہے۔
ان نگاہوں کے تصدق مر ی آنکھےں بےدم
کہ جنہےں آتا ہے اغےا ر کو اپنا کر نا

ای پیپر دی نیشن